مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
نبی اور ایمان والوں کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ مشرکوں کے لیے یہ بات کھل کر سامنے آجانے کے بعد کہ وہ جہنمی ہیں دعائے مغفرت (٩١) کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
1- اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ جب نبی (ﷺ) کے عم بزرگوار ابو طالب کا آخری وقت آیا تو نبی (ﷺ) ان کے پاس گئے جبکہ ان کے پاس ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ (ﷺ) نے فرمایا چچا جان ”لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ پڑھ لیں، تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے لئے حجت پیش کر سکوں، ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا 'اے ابو طالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے؟ (یعنی مرتے وقت یہ کیا کرنے لگے ہو؟ حتٰی کہ اسی حال میں ان کا انتقال ہوگیا) نبی (ﷺ) نے فرمایا: ”جب تک اللہ تعالٰی کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا میں آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا“، جس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة التوبة) اور سورہ قصص کی آیت 56 ﴿إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی (ﷺ )نے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت طلب فرمائی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد ج 5، ص355) اور نبی (ﷺ) نے اپنی مشرک قوم کے لیے جو دعا فرمائی تھی [ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ]۔ ”یا اللہ میری قوم بےعلم ہے اس کی مغفرت فرما دے“، یہ آیت کے منافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کامطلب ان کے لیے ہدایت کی دعا ہے۔ یعنی وہ میرے مقام و مرتبہ سے ناآشنا ہے، اسے ہدایت سے نواز دے تاکہ وہ مغفرت کی اہل ہوجائے۔ اور زندہ کفار ومشرکین کے لیے ہدایت کی دعا کرنی جائز ہے۔