التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
وہ مومنین توبہ (٩٠) کرنے والے، عبادت کرنے والے، اللہ کی تعریف کرنے والے، اللہ کے دین کی خاطر زمین میں چلنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، بھلائی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں اور آپ مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے۔
1- یہ انہیں مومنین کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ نے کر لیا ہے، وہ توبہ کرنے والے، یعنی گناہوں اور فواحش سے بچتے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، زبان سے اللہ کی حمد اور ثنا بیان کرنے والے اور دیگر ان صفات کے حامل ہیں جو آیت میں مذکور ہیں۔ سیاحت سے مراد اکثر مفسرین نے روزے لیے ہیں اور اسی کو ابن کثیر نے صحیح ترین اور مشہور ترین قول قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے۔ تاہم سیاحت سے زمین کی سیاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں غاروں اور سنسان بیابانوں میں جاکر ڈیرے لگا لینا بھی اس سے مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رہبانیت اور جوگی پن کا ایک حصہ ہے جو اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ فتنوں کے ایام میں اپنے دین کو بچانے کے لیے شہروں اور آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں جاکر رہنے کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفتن و کتاب الفتن باب التعرب۔ ای السکنی مع الاعراب۔ فی الفتنة) 2- مطلب یہ ہے کہ مومن کامل وہ ہے جو قول اور عمل اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے اور یوں اللہ کی حدوں کو پامال نہیں، بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ایسے ہی کامل مومن خوشخبری کے مستحق ہیں یہ وہ بات ہے جسے قرآن میں ﴿اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ﴾ کے الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہاں اعمال صالحہ کی قدرے تفصیل بیان کر دی گئی ہے۔