خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
آپ ان کے اموال کی زکوۃ وصول کیجیے (٨١) تاکہ ان کو پاک کیجیے اور اس کے ذریعہ ان کے باطن کا تزکیہ کیجیے، اور ان کے لیے دعا کرتے رہیے، بیشک آپ کی دعائیں ان کے لیے باعث سکون ہیں اور اللہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
1- یہ حکم عام ہے۔ صدقے سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکٰوۃ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی۔ نبی (ﷺ) کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کو تطہیر اور ان کا تزکیہ فرما دیں۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زکٰوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ لینے والے کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہیے۔ جس طرح یہاں اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر (ﷺ) کو دعا کرنے کا حکم دیا، اور آپ (ﷺ) اس کے مطابق دعا فرمایا کرتے تھے۔ اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوۃ کی وصولی امام وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرے تو حضرت ابو بکر صدیق (رضی الله عنہ) اور صحابہ کرام (رضی الله عنہم) کے طرز عمل کی روش میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ (ابن کثیر)