يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم لوگ ان سے خوش ہوجاؤ، پس اگر تم ان سے خوش ہوجاؤ گے تو بیشک اللہ ظالم لوگوں سے خوش نہیں ہوگا۔
1- ان تین آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک کے سفر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے نبی (ﷺ) اور مسلمانوں کو بخیریت واپسی پر اپنے عذر پیش کرکے ان کی نظروں میں وفادار بننا چاہتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا جب ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو، کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کر دیا ہے۔ اب تمہارے جھوٹے عذروں کا ہم اعتبار کس طرح کر سکتے ہیں؟ البتہ ان عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مزید واضح ہو جائے گی، تمہارا عمل، جسے اللہ تعالٰی بھی دیکھ رہا ہے اور رسول (ﷺ) کی نظر بھی اس پر ہے، تمہارے عذروں کی حقیقت کو خود بے نقاب کر دے گا۔ اور اگر تم رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمانوں کو پھر بھی فریب اور مغالطہ دینے میں کامیاب رہے تو بالآخر ایک وقت وہ تو آئے گا ہی، جب تم ایسی ذات کی بارگاہ میں حاضر کئے جاؤگے جو ظاہر و باطن ہر چیز کو خوب جانتی ہے۔ اسے تو تم بہر صورت دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ اللہ تمہارا سارا کچا چٹھا تمہارے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ تمہارے لوٹنے پر یہ قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض یعنی درگزر کردو۔ پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ یہ لوگ اپنے عقائد واعمال کے لحاظ سے پلید ہیں، انہوں نے جو کچھ کیا ہے۔ اس کا بدلہ جہنم ہی ہے۔ تیسری آیت میں فرمایا یہ تمہیں راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز وفرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالٰی ان سے راضی کیونکر ہو سکتا ہے؟۔