وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ
اور نہ ان کے لیے کوئی گناہ کی بات ہے جو آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کے لیے سواری (70) کا انتظام کردیں، تو آپ نے کہا کہ میرے پاس تمہارے لیے کوئی سواری نہیں ہے، تو وہ واپس ہوگئے در آنحالیکہ ان کی آنکھوں سے غم کے مارے آنسو جاری تھے کہ ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال نہیں ہے
1- یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی (ﷺ) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالٰی نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کر دیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (ﷺ) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ”تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں“ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا [ حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ ] ( صحيح البخاري كتاب الجهاد، باب من حبسه العذر عن الغزو- وصحيح مسلم، كتاب الإمارة باب ثواب من حبسه عن الغزو مرض ....) ”عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے“۔