سورة البقرة - آیت 125

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور (یاد کرو) جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ (١٨٥) اور گہوارۂ امن بنایا، اور (انہیں حکم دیا کہ) مقام ابراہیم (١٨٦) کو نماز کی جگہ بناؤ، اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو وصیت کی کہ میرے گھر کو طواف و اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا (١٨٧) رکھو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائیں : ایک ﴿مَثَابَةً لِلنَّاسِ﴾ ”لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ“ دوسرے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے کی جگہ۔ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بےقرار رہتا ہے۔ یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی، بلکہ روزافزوں رہتا ہے۔ دوسری خصوصیت (امن کی جگہ) یعنی یہاں کسی دشمن کا بھی خوف نہیں رہتا چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے اس احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ 2- مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے رہے۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے قدم کے نشانات ہیں۔ اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، جسے ہر حاجی ومعتمر طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾۔