فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ
پس اگر اللہ آپ کو (مدینہ میں) ان میں سے ایک جماعت تک پہنچا دے، اور وہ جہاد میں نکلنے کی آپ سے اجازت (63) مانگیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ میرے ساتھ ہرگز نہ نکلو گے، اور میرے ساتھ مل کر کسی دشمن سے ہرگز جنگ نہ کروگے تم لوگوں نے پہلی بار (جنگ تبوک کے موقع سے) بیٹھے رہنے کو پسند کیا تھا، تو اب بھی پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو
1- منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالٰی آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔ 2- یعنی کسی اور جنگ کے لئے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔ 3- یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔ 4- یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم (ﷺ) کو یہ ہدایت اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم وغم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔ (اگر تھا)