وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (یاد کرو) جب ابراہیم (١٨٢) کو ان کے رب نے چند باتوں (١٨٣) کے ذریعہ آزمایا، تو انہوں نے ان سب کو پورا کردکھلایا، اللہ تعالیٰ نے کہا، میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں، کہا : اور میری اولاد میں سے بھی۔ تو اللہ نے فرمایا : ظالم لوگ (١٨٤) میرے اس وعدہ میں داخل نہیں ہوں گے
1-کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت، نارنمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب وکامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی عیسائی حتیٰ کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی اور سمجھی جاتی ہے۔ 2- اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہی ہے: ﴿وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ﴾۔ (العنکبوت: 27) ”ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا۔“ پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم (عليہ السلام) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا۔ (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ (میرا وعدہ ظالموں سے نہیں) اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود، اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم ومشرک ہوں گے، ان کی شقاوت ومحرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی ہے۔ اگر ایمان وعمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے : ]مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِه نَسَبُه ] (صحيح مسلم ، كتاب الذكر والدعاء ... باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن ...) ”جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا، اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔“