سورة التوبہ - آیت 74

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

منافقین اللہ کی قسم (56) کھاتے ہیں کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے، حالانکہ کفر کا کلمہ اپنی زبان پر لا چکے ہیں، اور اسلام لانے کے بعد دوبارہ کافر ہوگئے ہیں، اور وہ کام کرنا چاہا جو وہ نہ کرسکے (57) اور انہوں نے اس وجہ سے (رسول اللہ) پر عیب لگایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے اللہ کے فضل سے انہیں مالدار (58) بنا دیا تھا، پس اگر وہ توبہ کرلیں گے تو ان کے لیے بہتر ہوگا، اور اگر وہ منہ پھیر لیں گے تو اللہ انہیں دنیا و آخرت میں دردناک عذاب دے گا، اور زمین پر کوئی ان کا یار و مددگار نہیں ہوگا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی (ﷺ) کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔ 2- اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ (ﷺ) کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ (ﷺ) باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کر دیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کر لیا۔ 3- مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالٰی اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالٰی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا۔ ملحوظہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ (ﷺ) کا ذکر اس لئے ہے کہ اس غنا اور تونگری کا ظاہری سبب رسول اللہ (ﷺ) کی ذات گرامی ہی بنی تھی، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے تھا۔ اس لئے آیت میں من فضلہ، واحد کی ضمیر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کردیا۔