يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے (55) اور ان پر سختی کیجئے، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت بری جگہ ہے
1- اس آیت میں نبی کریم (ﷺ) کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی (ﷺ) کے بعد اس کے مخاطب آپ (ﷺ) کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بےنقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ ونصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرناجائز ہے۔ 2- ”غِلظَة“ رَأفة کی ضد ہے، جس کے معنی نرمی اور شفقت کرنے کے ہیں۔ اس اعتبار سے غلظۃ کے معنی سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم (ﷺ) کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ (ﷺ) اختیار کر سکتے تھے نہ اللہ تعالٰی ہی کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔ 3- جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔