الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
منافق مرد اور منافق عورتیں سب کا حال ایک (51) ہے، سبھی برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں، اور اپنے ہاتھ بند رکھتے ہیں، وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ بھی انہیں بھول گیا، بے شک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں
1- منافقین، جو حلف اٹھا کر مسلمان باور کراتے تھے کہ ”ہم تم ہی میں سے ہیں“، اللہ تعالٰی نے اس کی تردید فرمائی، کہ ایمان والوں سے ان کا کیا تعلق؟ البتہ یہ سب منافق، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی ہیں، یعنی کفر ونفاق میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ آگے ان کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جو مومنین کی صفات کے بالکل الٹ اور برعکس ہیں۔ 2- اس سے مراد بخل ہے۔ یعنی مومن کی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور منافق کی اس کے برعکس بخل، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ 3- یعنی اللہ تعالٰی بھی ان سے ایسا معاملہ کرے گا کہ گویا اس نے انہیں بھلا دیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿الْيَوْمَ نَنْسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا﴾ ( سورة الجاثية: 34) ”آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے“، مطلب یہ کہ جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو چھوڑے رکھا۔ قیامت کے دن اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل وکرم سے محروم رکھے گا گویا نسیان کی نسبت اللہ تعالٰی کی طرف علم بلاغت کے اصول مشاکلت کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کی ذات نسیان سے پاک ہے۔ (فتح القدیر)