سورة البقرة - آیت 118

وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جو لوگ علم نہیں رکھتے، انہوں نے کہا اللہ ہم سے باتیں (١٧٢) کیوں نہیں کرتا، یا کوئی نشانی (١٧٣) ہمارے پاس کیوں نہیں آتی، ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کہا تھا جو ان سے پہلے تھے، ان کے دل (١٧٤) ایک دوسرے جیسے ہیں، ہم نے اپنی نشانیاں (١٧٥) ان لوگوں کے لیے بیان کردی ہیں جو یقین رکھتے ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی کیوں نہیں دکھا دیتا؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں جس طرح کہ سورۂ بنی اسرائیل (آیت 90 تا 93) میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ 2- یعنی مشرکین عرب کے دل، کفروعناد اور انکار وسرکشی میں اپنے ماقبل کے لوگوں کے دلوں کے مشابہ ہوگئے۔ جیسے سورۂ ذاریات میں فرمایا گیا : ﴿كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ﴾۔ ”ان سے پہلے جو بھی رسول آیا، اس کو لوگوں نے جادوگر یا دیوانہ ہی کہا۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کوو صیت کرجاتے تھے؟ نہیں یہ سب سرکش لوگ ہیں۔“ یعنی قدر مشترک ان سب میں سرکشی کا جذبہ ہے، اس لئے داعیان حق کے سامنے نئے نئے مطالبے رکھتے ہیں، یا انہیں دیوانہ گردانتے ہیں۔