وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ
اور اگر وہ معاہدہ کے بعد اپنی قسمیں (11) توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں عیب نکالیں تو سردارانِ کفر سے جنگ کرو، ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، شاید کہ وہ (اپنی کافرانہ حرکتوں سے) باز آجائیں
1- أَيْمَانٌ، يَمِينٌ کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ مراد پیشوا اور لیڈر ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں اور دین میں طعن کریں، تو ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کفر کے ان پیشواؤں سے لڑائی کرو، ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آجائیں۔ اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا، البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔ لیکن امام مالک، امام شافعی اور دیگر علماء طعن فی الدین کو نقض عہد بھی قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک اس میں دونوں ہی چیزیں آجاتی ہیں لہذا اس ذمی کا قتل جائز ہے اسی طرح نقض عہد کی صورت میں بھی قتل جائزہے۔ (فتح القدیر)