يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
لوگ آپ سے اموال غنیمت (1) کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہئے کہ اموال غنیمت اللہ اور رسول کے لیے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو، اور اپنے آپس کے تعلقات کو ٹھیک رکھو، اور اگر اہل ایمان ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو
1- ”أَنْفَالٌ“ نَفَلٌ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ اس مال واسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اسے نفل (زیادہ) اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے یا اس لیے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ 2- یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کا رسول، اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو اسے تقسیم کرلو۔ 3- اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقویٰ، اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے۔ خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے، اس کے علاج کے لیے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیراپھیری اور خیانت کا بھی امکاں رہتا ہے اس کے لیے تقویٰ کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔