وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اور اگر ہم چاہتے تو اسے اس کی وجہ سے رفعت و بلندی عطا کرتے، لیکن وہ پستی میں گرتا چلا گیا اور اپنی خواہش نفس کا فرمانبردار ہوگیا، پس اس کی مثال کتے کی سی ہے، اگر تم اس پر کچھ بوجھ ڈال دو گے تو ہانپے گا، یا اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دو گے تب بھی ہانپے گا، یہ ان کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، پس آپ ان لوگوں کو یہ قصے سناتے رہئے، شاید کہ وہ غور کریں
1- ”لَهَثٌ“ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان کے باہر نکالنے کو۔ کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اس کے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہویا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہر حال میں زبان باہر نکالنے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے، اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال ومتاع کے لیے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔ 2- اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔