فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر ان کے بعد ایسے لوگ (103) آئے جو اللہ کی کتاب کے وارث بنتے ہی اس کے بدلے میں اس دنیا کے فائدوں کو قبول کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ (اللہ کی طرف سے) ہمیں معاف کردیا جائے گا اور اگر پھر دوبارہ پہلے جیسا کوئی دنیاوی فائدہ انہیں پیش کیا جاتا تو اسے قبول کرلیتے، کیا اللہ کی کتاب میں ان سے یہ عہد و پیمان نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں صرف حق بات کہیں گے، اور انہوں نے ان باتوں کو پڑھ بھی لیا تھا جو اس کتاب میں تھیں، اور آخرت کی زندگی ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے
1- ”خَلَفٌ“ (لام پر زبرکے ساتھ) صالح اولاد کو اور خَلْفٌ (بِسُكُونِ اللامِ) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔ 2- ”أَدْنَى“ دُنُوٌّ (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَاءَةٌ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر اور گرا پڑا مال ہے۔ مطلب دونوں سے ان کے دنیا کے مال ومتاع کے حرص کی وضاحت ہے۔ 3- یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں۔ جیسے آج کل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔ 4-اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔ 5- اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہوسکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّيحُ الآثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کر دیا یعنی ان پر عمل ترک کر دیا۔