سورة البقرة - آیت 97

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجئے کہ اگر کوئی جبریل کا دشمن (١٥١) ہے (تو اسے کچھ نقصان نہیں) اس لیے کہ اس نے قرآن آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے، جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور مومنین کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-احادیث میں ہے کہ چند یہودی علما نبی (ﷺ) کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ (ﷺ) نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیوں کہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ (ﷺ) نے ان کے سوالات کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ (ﷺ) پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : جبریل۔ یہود کہنے لگے : جبریل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو حرب وقتال اور عذاب لے کر اترتا رہا ہے۔ اور اسی بہانے سے آپ (ﷺ) کی نبوت ماننے سے انکار کردیا (ابن کثیر وفتح القدیر)