أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
کیا تمہیں اس بات سے تعجب ہے کہ تمہارے رب کی وحی تم ہی میں سے ایک آدمی پر نازل ہوئی ہے، تاکہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم اللہ سے ڈرو، اور تاکہ تم پر اللہ کی رحمت ہو
1- حضرت نوح (عليہ السلام) اور حضرت آدم (عليہ السلام) کے درمیان دس قرنوں یا دس پشتوں کا فاصلہ ہے ۔ حضرت نوح (عليہ السلام) سے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے پھر سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالحین فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں (عبادت خانے) قائم کردیں اور ان کی تصویریں بھی وہاں لٹکادیں، مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح ان کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکرالٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے ۔ جب کچھ وقت گزرا تو انہوں نے ان تصویروں کے مجسمے بنادئیے اور پھر کچھ اور عرصہ گزرنے کے بعد یہ مجسمے بتوں کی شکل اختیار کر گئے اور ان کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی اور قوم نوح کے یہ صالحین وَدٌّ، سُوَاعٌ، يَعُوقُ، يَغوثُ اور نَسْرٌ معبود بن گئے ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (عليہ السلام) کو ان میں نبی بناکر بھیجا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی ۔ لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا، کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا بالآخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا ۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ قوم نوح نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان ہی میں سے ایک آدمی نبی بن کر آگیا جو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے؟ یعنی ان کے خیال میں نبوت کے لئے انسان موزوں نہیں ۔