وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا، اور طور پہاڑ (١٤٦) کو تمہارے اوپر اٹھایا (اور کہا) کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے پوری قوت کے ساتھ تھام لو اور سنو، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم کرنے کے نہیں، اور ان کے دلوں میں، ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت (١٤٧) بٹھا دی گئی۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری بات (١٤٨) کا حکم دیتا ہے
1-یہ کفر وانکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کہ سن لیا، یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ نیت کہ ہم نے کون سا عمل کرنا ہے؟ 2- ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے، کہ انسان کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ دوسرے، اس کو أُشْرِبُوا (پلادی گئی) سے تعبیر کیا گیا، کیوں کہ پانی انسان کے رگ وریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزراس طرح نہیں ہوتا۔ (فتح القدیر) 3- یعنی عصیان اور بچھڑے کی محبت وعبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔