سورة الانعام - آیت 159

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں اختلاف (158) پیدا کیا، اور جماعتوں میں بٹ گئے آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، پھر وہی انہیں ان کے کیے کی خبر دے گا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اہل بدعت گمراہ ہیں کہتے ہیں کہ یہ آیت یہود و نصاریٰ کے بارے میں اتری ہے ۔ یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے سخت اختلافات میں تھے جن کی خبر یہاں دی جا رہی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14257:) ایک حدیث میں ہے { «شَیْءٍ» تک اس آیت کی تلاوت فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ بھی تجھ سے کوئی میل نہیں رکھتے ۔ اس امت کے اہل بدعت شک شبہ والے اور گمراہی والے ہیں } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14271:) اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔ یعنی ممکن ہے یہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہو ۔ ابوامامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد خارجی ہیں “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:8150/6:ضعیف) یہ بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ ایک اور غریب حدیث میں ہے { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مراد اس سے اہل بدعت ہے } } ۔ ۱؎ (طبرانی صغیر:203/1:ضعیف) اس کا بھی مرفوع ہونا صحیح نہیں ۔ بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جو بھی اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مخالفت کرے اور اس میں پھوٹ اور افتراق پیدا کرے گمراہی کی اور خواہش پرستی کی پیروی کرے نیا دین اختیار کرے نیا مذہب قبول کرے وہی وعید میں داخل ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس حق کو لے کر آئے ہیں وہ ایک ہی ہے کئی ایک نہیں ۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرقہ بندی سے بچایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھا ہے ۔ اسی مضمون کی دوسری آیت «شَرَعَ لَکُم مِّنَ الدِّینِ مَا وَصَّیٰ بِہِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَیٰ وَعِیسَیٰ» ۱؎ (42-الشوری:13) ہے -ایک حدیث میں بھی ہے کہ { ہم جماعت انبیاء علیہم السلام علاقی بھائی ہیں ۔ ہم سب کا دین ایک ہی ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3443) پس صراط مستقیم اور دین پسندیدہ اللہ کی توحید اور رسولوں کی اتباع ہے اس کے خلاف جو ہو ضلالت جہالت رائے خواہش اور بد دینی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیزار ہیں ان کا معاملہ سپرد رب ہے وہی انہیں ان کے کرتوت سے آگاہ کرے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَالَّذِینَ ہَادُوا وَالصَّابِئِینَ وَالنَّصَارَیٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِینَ أَشْرَکُوا إِنَّ اللہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّ اللہَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ» ۱؎ (22-الحج:17) ’ مومنوں ، یہودیوں ، صابیوں اور نصرانیوں میں مجوسیوں میں مشرکوں میں اللہ خود قیامت کے دن فیصلے کر دے گا ‘ اس کے بعد اپنے احسان حکم اور عدل کا بیان فرماتا ہے ۔