وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اور کہتے ہیں کہ یہ چوپائے اور کھیتیاں (138) (بتوں کے لیے) مخصوص ہیں، وہ اپنے زعم باطل کے مطابق کہتے ہیں کہ انہٰں وہی کھائے گا جسے ہم چاہیں گے، اور کچھ جانوروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان پر سواری یا بار برداری حرام کردی گئی ہے، اور کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں ذبح کرتے وقت وہ اللہ کا نام نہیں لیتے ہیں، یہ سب اللہ کے بارے میں افترا پردازی ہے، عنقریب اللہ انہٰں ان کی تمام افترا پردازیوں کی سزا دے گا
اللہ کا مقرر کردہ راستہ «الْحِجْرُ» کے معنی احرام کے ہیں -یہ طریقے شیطانی تھے کوئی اللہ کا مقرر کردہ راستہ نہ تھا ۔ اپنے معبودوں کے نام یہ چیزیں کر دیتے تھے ، پھر جسے چاہتے کھلاتے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «قُلْ اَرَءَیْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا» (10-یونس:59) یعنی ’ بتلاؤ تو یہ اللہ کے دیئے رزق میں سے تم جو اپنے طور پر حلال حرام مقرر کر لیتے ہو اس کا حکم تمہیں اللہ نے دیا ہے یا تم نے خود ہی خود پر تراش لیا ہے ؟ ‘ دوسری آیت میں صاف فرمایا «مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃٍ وَّلَا سَایِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَاَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ» ۱؎ (5-المائدہ:103) یعنی ’ یہ کافروں کی نادانی ، افتراء اور جھوٹ ہے ۔ بحیرہ سائبہ اور حام نام رکھ کر ان جانوروں کو اپنے معبودان باطل کے نام پر داغ دیتے تھے پھر ان سے سواری نہیں لیتے تھے ، جب ان کے بچے ہوتے تھے تو انہیں ذبح کرتے تھے حج کے لیے بھی ان جانوروں پر سواری کرنا حرام جانتے تھے ‘ ۔ نہ کسی کام میں ان کو لگاتے تھے نہ ان کا دودھ نکالتے تھے پھر ان کاموں کو شرعی کام قرار دیتے تھے اور اللہ کا فرمان جانتے تھے اللہ انہیں ان کے اس کرتوت کا اور بہتان بازی کا بدلہ دے گا ۔