وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اور اگر آپ انہیں دیکھیں گے جب جہنم کے پاس لا کر کھڑے کیے جائیں گے (تو آپ ان کا حال زار دیکھ کر تعجب کریں گے) تو وہ کہیں گے کہ اے کاش ! ہم دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دئیے جاتے، اور اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے اور ایمان والوں میں سے ہوجاتے
کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ ’ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں ‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بے ایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی ، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے ۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ «قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ ہٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبٰ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ» ۱؎ (17-الإسراء:102) ’ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں ‘ ۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت «وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ» ۱؎ (17۔النمل:14) یعنی ’ فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہراً مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو ۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ العنکبوت جہاں صاف فرمان ہے «وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ» ۱؎ (29۔العنکبوت:11) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہو جائیں گے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اب ان کی تمنا ہوگی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لیے ہو گی ۔ چنانچہ عالم الغیب اللہ ﷻ فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے ‘ ۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے ۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے ، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں ، نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ۔ پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ ’ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے ، اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا ’ کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہو گیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں ؟ ‘ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو ‘ ۔ «أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ» ۱؎ (52-الطور:15) ’ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو ‘ ۔