لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
آپ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن (107) یہود اور اہل شرک کو پائیں گے، اور مسلمانوں کے سب سے قریبی دوست ان لوگوں کو پائیں گے جنہوں نے کہا کہ ہم نصاری ہیں، یہ اس لیے کہ ان میں کچھ علماء تارک دنیا عبادت گذار ہوتے ہیں، اور وہ کبر و غرور نہیں کرتے ہیں
یہودیوں کا تاریخی کردار یہ آیت اور اس کے بعد کی چار آیتیں نجاشی اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہیں ۔ جب ان کے سامنے حبشہ کے ملک میں جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم پڑھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ۔ یہ خیال رہے کہ یہ آیتیں مدینے میں اتری ہیں اور جعفر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیتیں اس وفد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جسے نجاشی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں ، حاضر خدمت ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و صفات دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنیں ۔ جب یہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن کریم سنا تو ان کے دل نرم ہو گئے بہت روئے دھوئے اور اسلام قبول کیا اور واپس جا کر نجاشی سے سب حال کہا نجاشی اپنی سلطنت چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آنے لگے لیکن راستے میں ہی انتقال ہو گیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12318:مرسل) یہاں بھی یہ خیال رہے کہ یہ بیان صرف سدی رحمۃ اللہ کا ہے اور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ وہ حبشہ میں ہی سلطنت کرتے ہوئے فوت ہوئے { ان کے انتقال والے دن ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے انتقال کی خبر دی اور ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1318) بعض تو کہتے ہیں اس وفد میں سات تو علماء تھے اور پانچ زاہد تھے یا پانچ علماء اور سات زاہد تھے ۔ بعض کہتے ہیں یہ کل پچاس آدمی تھے اور کہا گیا ہے کہ ساٹھ سے کچھ اوپر تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ستر تھے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” جن کے اوصاف آیت میں بیان کئے گئے ہیں یہ اہل حبشہ ہیں ۔ مسلمان مہاجرین حبشہ جب ان کے پاس پہنچے تو یہ سب مسلمان ہو گئے تھے “ ۔ قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” پہلے یہ دین عیسوی پر قائم تھے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھا اور قرآن کریم کو سنا تو فوراً سب مسلمان ہو گئے “ ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ کا فیصلہ ان سب اقوال کو ٹھیک کر دیتا ہے اور فرماتے ہیں کہ ” یہ آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں خواہ وہ حبشہ کے ہوں یا کہیں کے “ ۔ یہودیوں کو مسلمانوں سے جو سخت دشمنی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سرکشی اور انکار کا مادہ زیادہ ہے اور جان بوجھ کر کفر کرتے ہیں اور ضد سے ناحق پر اڑتے ہیں ، حق کے مقابلہ میں بگڑ بیٹھتے ہیں حق والوں پر حقارت کی نظریں ڈالتے ہیں ان سے بغض و بیر رکھتے ہیں ۔ علم سے کورے ہیں علماء کی تعداد ان میں بہت ہی کم ہے اور علم اور ذی علم لوگوں کی کوئی وقعت ان کے دل میں نہیں یہی تھے جنہوں نے بہت سے انبیاء علیہم السلام کو قتل کیا خود پیغمبر الزمان احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ بھی کیا اور ایک دفعہ نہیں بلکہ باربار ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا اور اپنے جیسے بدباطن لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کئے لیکن اللہ نے ہر مرتبہ انہیں نامراد اور ناکام کیا ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب کبھی کوئی یہودی کسی مسلمانوں کو تنہائی میں پاتا ہے اس کے دل میں اس کے قتل کا قصد پیدا ہوتا ہے } } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4439:ضعیف) ایک دوسری سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے لیکن ہے بہت ہی غریب ہاں مسلمانوں سے دوستی میں زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اپنے تئیں نصاریٰ کہتے ہیں مسیح کے تابعدار ہیں انجیل کے اصلی اور صحیح طریقے پر قائم ہیں ان میں ایک حد تک فی الجملہ مسلمانوں اور اسلام کی محبت ہے یہ اس لیے کہ ان میں نرم دلی ہے جیسے ارشاد باری آیت «وَجَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ رَاْفَۃً وَّرَحْمَۃً» ۱؎ (57-الحدید:27) ، یعنی ’ عیسیٰ علیہ السلام کے تابعداروں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور رحم ڈال دیا ہے ۔ ان کی کتاب میں حکم ہے کہ جو تیرے داہنے رخسار پر تھپڑ مارے تو اس کے سامنے بایاں رخسار بھی پیش کر دے ‘ ۔ ان کی شریعت میں لڑائی ہے ہی نہیں ۔ یہاں ان کی اس دوستی کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان میں خطیب اور واعظ ہیں ۔ «قِسِسِیْنٌ» اور «قِسٌ» کی جمع «قِسِّیْسِیْنَ» ہے «قُسُوْسٌ» بھی اس کی جمع آتی ہے «رُہْبَانٌ» جمع ہے راہب کی ، راہب کہتے ہیں عابد کو ۔ یہ لفظ مشتق ہے رہب سے اور رہبت کے معنی ہیں خوف اور ڈر کے ۔ جیسے «رَاکِبٌ» کی جمع «رُکْبَانٌ» ہے اور «فُرْسَانٌ» ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں کبھی «رُہْبَانٌ» واحد کیلئے بھی آتا ہے اور اس کی جمع «رَھَابِیْنَ» آتی ہے جیسے «قُرْبَانٌ» اور «قَرَابِیْنَ» اور «جوازن» اور «جوازین» اور کبھی اس کی جمع «رَہَابِنَہ» بھی آتی ہے ۔ عرب کے اشعار میں بھی لفظ «رُہْبَانٌ» واحد کیلئے آیا ۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے ایک شخص «قِسِّیسِینَ وَرُہْبَانًا» پڑھ کر اس کے معنی دریافت کرتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «قِسِسِیْنٌ» کو خانقاہوں اور غیر آباد جگہوں میں چھوڑ مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «صدیقین وَرُہْبَانًا» پڑھایا ہے ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:6175:ضعیف جدا) الغرض ان کے تین اوصاف یہاں بیان ہوئے ہیں ان میں عالموں کا ہونا ، ان میں عابدوں کا ہونا ، ان میں تواضع فروتنی اور عاجزی کا ہونا ۔