يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اے ایمان والو ! جن اہل کتاب اور کافروں نے تمہارے دین کا مذاق (80) اڑایا اور اس کا تماشہ بنایا، انہیں اپنا دوست نہ بناؤ، اور اگر تم اہل ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو
اذان اور دشمنان دین اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے نفرت دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ کیا تم ان سے دوستیاں کرو گے جو تمہارے طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے ہیں اور اسے ایک بازیچہ اطفال بنائے ہوئے ہیں ‘ ۔ «مِّنَ» بیان جنس کیلئے جیسے «مِنَ الْاَوْثَانِ» میں ۔ ۱؎ (22-الحج:30) بعض نے «وَالْکُفَّارَ» پڑھا ہے اور عطف ڈالا ہے اور بعض نے «وَالْکُفَّارِ» پڑھا ہے اور «لاَ تَّتخِذُوْا» کا نیا معمول بنایا ہے تو تقدیر عبارت «وَالاَ الْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ» ہو گی ، کفار سے مراد مشرکین ہیں ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:430/10:) ’ اللہ سے ڈرو اور ان سے دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے مومن ہو ۔ یہ تو تمہارے دین کے ، اللہ کی شریعت کے دشمن ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ» (3 ۔ آل عمران:28) ، ’ مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے وہ اللہ کے ہاں کسی بھلائی میں نہیں ‘ ۔ ہاں ان سے بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے ہیں جب تم نمازوں کیلئے لوگوں کو پکارتے ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں جانتے ، اس لیے کہ یہ متبع شیطان ہیں ، { اس کی یہ حالت ہے کہ اذان سنتے ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے بھاگتا ہے اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے بعد آ جاتا ہے پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے ختم ہوتے ہی آ کر اپنے بہکاوے میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے یہاں تک کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1231) امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے پھر یہی آیت تلاوت کی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1164/4) ایک نصرانی مدینے میں تھا ، اذان میں جب «اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ» سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی ، کوئی پتنگا اڑا جس سے گھر میں آگ لگ گئی ، وہ شخص اس کا گھربار سب جل کر ختم ہو گیا ۔ فتح مکہ والے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو کعبے میں اذان کہنے کا حکم دیا ، قریب ہی ابوسفیان بن حرب ، عتاب بن اسید ، حارث بن ہشام بیٹھے ہوئے تھے ، عتاب نے تو اذان سن کر کہا میرے باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے والی آواز کے سننے سے پہلے ہی دنیا سے چل بسا ۔ حارث کہنے لگا اگر میں اسے سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا ۔ ابوسفیان نے کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے نہیں نکالتا ، ڈر ہے کہ کہیں یہ کنکریاں اسے خبر نہ کر دیں انہوں نے باتیں ختم کی ہی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور فرمانے لگے { اس وقت تم نے یہ یہ باتیں کیں ہیں } ، یہ سنتے ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے تھے کہ اس نے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیا ہوگا ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:78/5) حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ جب شام کے سفر کو جانے لگے تو ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے جن کی گود میں انہوں نے ایام یتیمی بسر کئے تھے ، کہا آپ رضی اللہ عنہ کی اذان کے بارے میں مجھ سے وہاں کے لوگ ضرور سوال کریں گے تو آپ رضی اللہ عنہ اپنے واقعات تو مجھے بتا دیجئیے ۔ فرمایا ہاں سنو { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس آ رہے تھے ، راستے میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن نے اذان کہی ، ہم نے اس کا مذاق اڑانا شروع کیا ، کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ { تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی ؟ } سب نے میری طرف اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے روک لیا اور فرمایا : { اٹھو اذان کہو } ۔ واللہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری سے زیادہ بری چیز میرے نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بے بس تھا ، کھڑا ہو گیا ، اب خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی اور جو سکھاتے رہے ، میں کہتا رہا ، پھر اذان پوری بیان کی ، جب میں اذان سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی ، پھر اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا : { اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے } ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے دل سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت بالکل جاتی رہی ، ایسی محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دل میں پیدا ہوگئی ، میں نے آرزو کی کہ مکے کا مؤذن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بنادیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ درخواست منظور فرمالی اور میں مکے میں چلا گیا اور وہاں کے گورنر عتاب بن اسید سے مل کر اذان پر مامور ہوگیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:389) ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چار مؤذنوں میں سے ایک آپ تھے اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے مؤذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔