وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور چور اور چورنی کے ہاتھ (51) کاٹ لو، ان کے یے کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عذاب کے طور پر، اور اللہ بڑی عزت والا، بڑی حکمت والا ہے
احکام جرم و سزا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوا أَیْمَانَہُمَا» ہے لیکن یہ قرأت شاذ ہے گو عمل اسی پر ہے لیکن وہ عمل اس قرأت کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے دلائل کی بناء پر ہے ۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا طریقہ اسلام سے پہلے بھی تھا اسلام نے اسے تفصیل وار اور منظم کر دیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے مسائل بھی پہلے تھے لیکن غیر منظم اور ادھورے ۔ اسلام نے انہیں ٹھیک ٹھاک کر دیا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے دویک نامی ایک خزاعی شخص کے ہاتھ چوری کے الزام میں قریش نے کاٹے تھے اس نے کعبے کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوروں نے اس کے پاس رکھ دیا تھا ۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت عام ہے تو ممکن ہے اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے مطالب بھی ممکن ہیں ۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے کہ انڈا چراتا ہے اور ہاتھ کٹواتا ہے رسی چرائی ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے } } ۱؎ (صحیح بخاری:6783) جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ چوری کے مال کی حد مقرر ہے ۔ گو اس کے تقرر میں اختلاف ہے ۔ امام مالک کہتے ہیں تین درہم سکے والے خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز ۔ چنانچہ صحیح بخاری مسلم میں { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6795) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اترنج کے چور کے ہاتھ کاٹے تھے جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل گویا صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پھل کے چور کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے ۔ حنفیہ اسے نہیں مانتے اور ان کے نزدیک چوری کے مال کا دس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے پاؤ یا دینار کے تقرر میں ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کا فرمان ہے کہ ” پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے زیادہ “ ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہیئے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6789) مسلم کی ایک حدیث میں ہے { چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر پاؤ دینار پھر اس سے اوپر میں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1684) پس یہ حدیث اس مسئلے کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے اور جس حدیث میں تین درہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ کاٹنے کو فرمانا مروی ہے وہ اس کے خلاف نہیں اس لیے کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا ۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے نہ کہ تین درہم ۔ عمر بن خطاب ، عثمان بن عفان ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم بھی یہی فرماتے ہیں ۔ عمر بن عبدالعزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہویہ ابوثور داؤد بن علی ظاہری رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک روایت میں امام اسحٰق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے کا نصاب ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے { چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے کم میں نہیں } ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا ۔ ۱؎ (مسند احمد:80/6:صحیح) نسائی میں ہے { چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم میں نہ کاٹا جائے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے ؟ فرمایا پاؤ دینار } ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4939،قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) پس ان تمام احادیث سے صاف صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جس ڈھال کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چنانچہ ابوبکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:944،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مخالفت کرتے رہے ہیں اور حدود کے بارے میں اختیار پر عمل کرنا چاہیئے اور احتیاط زیادتی میں ہے اس لیے دس درہم نصاب ہم نے مقرر کیا ہے ۔ بعض سلف کہتے ہیں کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم ، ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ علیہم سے یہی مروی ہے ۔ سعید بن جیر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے برابر کے مال کی چوری میں ۔ ظاہریہ کا مذہب ہے کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے گا انہیں جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں اس لیے تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ انڈے سے مراد لوہے کا انڈا ہے اور رسی سے مراد کشتیوں کے قیمتی رسے ہیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1687) تیسرا جواب یہ ہے کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے کے ہے یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے چوری شروع کرتا ہے آخر قیمتی چیزیں چرانے لگتا ہے اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور افسوس کے اوپر چور کو نادم کرنے کے فرما رہے ہیں کہ { کیسا رذیل اور بے خوف انسان ہے کہ معمولی چیز کیلئے ہاتھ جیسی نعمت سے محروم ہو جاتا ہے } ۔ مذکور ہے کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے اس بارے میں بڑے اعتراض شروع کئے اور اس کے جی میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میرے اس اعتراض کا جواب کسی سے نہیں ہو سکتا تو اس نے ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں خاموش ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے بچائے ۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے اسے جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کر دیئے گئے ۔ قاضی عبدالوہاب نے جواب دیا تھا کہ ” جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ خائن ہوگیا اس نے چوری کرلی تو اس کی قیمت گھٹ گئی “ ۔ بعض بزرگوں نے اسے قدرے تفصیل سے جواب دیا تھا کہ ” اس سے شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کا امن و امان قائم ہوتا ہے ، جو کسی کا ہاتھ بے وجہ کاٹ دینے کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے بند ہو جائے “ ۔ پس یہ تو عین حکمت ہے اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا ۔ یہ بدلہ ہے ان کے کرتوت کا ۔ مناسب مقام یہی ہے کہ جس عضو سے اس نے دوسرے کو نقصان پہنچایا ہے ، اسی عضو پر سزا ہو ۔ تاکہ انہیں کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہہ ہو جائے ۔ اللہ اپنے انتقام میں غالب ہے اور اپنے احکام میں حکیم ہے ۔ جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلے اور اللہ کی طرف جھک جائے ، اللہ اسے اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا ہے ۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے لیا ہے چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے ، لہٰذا صرف توبہ کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے اسے نہ پہنچائے یا اس کے بدلے پوری پوری قیمت ادا کرے ۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے ، صرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ” جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہو چکا ہے تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں “ ۔ دارقطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { ایک چور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا ، جس نے چادر چرائی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا : { میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہوگی } ، انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے چوری کی ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو } ۔ جب ہاتھ کٹ چکا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { توبہ کرو } ، انہوں نے توبہ کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ نے تمہاری توبہ قبول فرما لی } ۔ ۱؎ (دارقطنی:102/3:ضعیف) رضی اللہ عنہ ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ { عمر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہتے ہیں کہ مجھ سے چوری ہو گئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پاک کیجئے ، فلاں قبیلے والوں کا اونٹ میں نے چرا لیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے والوں کے پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہوگیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے پر کہنے لگے ، اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے میرے جسم سے الگ کر دیا ، تو نے میرے سارے جسم کو جہنم میں لے جانا چاہا تھا } ۔ رضی اللہ عنہ ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2588،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ { ایک عورت نے کچھ زیور چرا لیے ، ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے پیش کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ، جب کٹ چکا تو اس عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میری توبہ بھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم تو ایسی پاک صاف ہوگئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی } ۔ اس پر آیت «فَمَن تَابَ مِن بَعْدِ ظُلْمِہِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللہَ یَتُوبُ عَلَیْہِ ۗ إِنَّ اللہَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ» ۱؎ (5-المائدہ:39) نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11922:ضعیف) مسند میں اتنا اور بھی ہے کہ { اس وقت اس عورت والوں نے کہا ہم اس کا فدیہ دینے کو تیار ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا } ۔ ۱؎ (مسند احمد:2/177:ضعیف) یہ عورت مخزوم قبیلے کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے کی عورت تھی ، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ کہیں سنیں ، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا ، بالاخر یہ طے ہوا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت پیارے ہیں ، وہ ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کریں ۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے جب اس کی سفارش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے سے فرمایا { اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہا ہے ؟ } اب تو اسامہ بہت گھبرائے اور کہنے لگے مجھ سے بڑی خطا ہوئی ، میرے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم استفغار کیجئے ۔ { شام کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ { تم سے پہلے کے لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے کہ ان میں سے جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کریں تو میں ان کے بھی ہاتھ کاٹ دوں } ۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا ۔ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں پھر اس بیوی صاحبہ نے توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کرلیا ، پھر وہ میرے پاس اپنے کسی کام کاج کیلئے آتی تھیں اور میں اس کی حاجت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیا کرتی تھی } ۔ [ رضی اللہ عنہما ] ۱؎ (صحیح بخاری:3732) مسلم میں ہے { ایک عورت لوگوں سے اسباب ادھار لیتی تھی ، پھر انکار کر جایا کرتی تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا } ۱؎ (صحیح مسلم:1688) اور روایت میں ہے یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4893 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں جو چوری سے تعلق رکھتی ہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ ، سچا حاکم ، اللہ ہی ہے ۔ جس کے کسی حکم کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ جس کے کسی ارادے کو کوئی بدل نہیں سکتا ، جسے چاہے بخشے جسے چاہے عذاب کرے ۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے ۔