وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور اللہ نے تمہیں جو نعمت (28) دی ہے، اسے یاد کرو، اور اس عہد و پیمان کو یاد کرو جو اس نے تم سے لیا ہے، جب تم نے کہا تھا کہ (اے اللہ !) ہم نے سنا اور تیری اطاعت کی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سینوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے
”اسلام“ زبان سے عہد اور ”ایمان“ عمل سے اطاعت اس عہد کا اظہار اس دین عظیم اور اس رسول اللہ کو بھیج کر جو احسان اللہ تعالیٰ نے اس امت پر کیا ہے ، اسے یاد دلا رہا ہے اور اس عہدے پر مضبوط رہنے کی ہدایت کر رہا ہے جو مسلمانوں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور امداد کرنے ، دین پر قائم رہنے ، اسے قبول کر لینے ، اسے دوسروں تک پہنچانے کیلئے کیا ہے ۔ اسلام لاتے وقت انہی چیزوں کا ہر مومن اپنی بیعت میں اقرار کرتا تھا ، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے الفاظ ہیں کہ { ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی کہ ” ہم سنتے رہیں گے اور مانتے چلے جائیں گے ، خواہ جی چاہے خواہ نہ چاہے ، خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور کسی لائق شخص سے ہم کسی کام کو نہیں چھینیں گے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7056) باری تعالیٰ عزوجل کا ارشاد ہے کہ ’ تم کیوں ایمان نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں ، اگر تمہیں یقین ہو اور اس نے تم سے عہد بھی لے لیا ہے ‘ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت میں یہودیوں کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کے قول قرار ہو چکے ہیں ، پھر تمہاری نافرمانی کے کیا معنی ؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ سے نکال کر جو عہد اللہ رب العزت نے بنو آدم سے لیا تھا ، اسے یاد دلایا جا رہا ہے جس میں فرمایا تھا کہ ’ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ ‘ سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم اس پر گواہ ہیں ، لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ۔ سدی رحمۃ اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وہی مروی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی اسی کو مختار بتایا ہے ۔ ہر حال میں ہر حال میں انسان کو اللہ کا خوف رکھنا چاہیئے ۔ دلوں اور سینوں کے بھید سے وہ واقف ہے ۔ ایمان والو لوگوں کو دکھانے کو نہیں بلکہ اللہ کی وجہ سے حق پر قائم ہو جاؤ اور عدل کے ساتھ صحیح گواہ بن جاؤ ۔ بخاری و مسلم میں سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دے رکھا تھا ، میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ میں تو اس وقت تک مطمئن نہیں ہونے لگی جب تک کہ تم اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ بنا لو ، میرے باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا { کیا اپنی دوسری اولاد کو بھی ایسا ہی عطیہ دیا ہے ؟ } جواب دیا کہ نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اللہ سے ڈرو ، اپنی اولاد میں عدل کیا کرو ، جاؤ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں بنتا } ۔ چنانچہ میرے باپ نے وہ صدقہ لوٹا لیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2586) پھر فرمایا ’ دیکھو کسی کی عداوت اور ضد میں آ کر عدل سے نہ ہٹ جانا ۔ دوست ہو یا دشمن ہو ، تمہیں عدل و انصاف کا ساتھ دینا چاہیئے ، تقوے سے زیادہ قریب یہی ہے ‘ ۔ «ہُوَ» کی ضمیر کے مرجع پر دلالت فعل نے کر دی ہے جیسے کہ اس کی نظریں قرآن میں اور بھی ہے اور کلام عرب میں بھی ، جیسے اور جگہ ہے «وَإِن قِیلَ لَکُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہُوَ أَزْکَیٰ لَکُمْ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ» ۱؎ (24-النور:28) یعنی ’ اگر تم کسی مکان میں جانے کی اجازت مانگو اور نہ ملے بلکہ کہا جائے کہ واپس جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ یہی تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے ‘ ۔ پس یہاں «ہُوَ» کی ضمیر کا مرجع مذکور نہیں ، لیکن فعل کی دلالت موجود ہے یعنی لوٹ جانا ۔ اسی طرح مندرجہ آیت میں یعنی عدل کرنا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں پر «ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی» «أَفْعَلِ التَّفْضِیلِ» کا صیغہ ایسے موقعہ پر ہے کہ دوسری جانب اور کوئی چیز نہیں ، جیسے اس آیت میں ہے ، «اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَیِٕذٍ خَیْرٌ مٰسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا» ۱؎ (25-الفرقان:24) ۔ اور جیسے کہ کسی صحابیہ رضی اللہ عنہا کا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنا کہ «اَنْتَ اَفَظٰ وَاَغْلَظُ مِنْ رَّسُوْلِ الّلہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ» ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3294) ’ اللہ سے ڈرو ! وہ تمہارے عملوں سے باخبر ہے ، ہر خیر و شر کا پورا پورا بدلہ دے گا ‘ ۔ وہ ایمان والوں ، نیک کاروں سے ان کے گناہوں کی بخشش کا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت دینے کا وعدہ کر چکا ہے ۔ گو دراصل وہ اس رحمت کو صرف فعل الٰہی سے حاصل کرینگے لیکن رحمت کی توجہ کا سبب ان کے نیک اعمال بنے ۔ پس حقیقتاً ہر طرح قابل تعریف و ستائش اللہ ہی ہے اور یہ سب کچھ اس کا فضل و رحم ہے ۔ حکمت و عدل کا تقاضا یہی تھا کہ ایمانداروں اور نیک کاروں کو جنت دی جائے اور کافروں اور جھٹلانے والوں کو جہنم واصل کیا جائے چنانچہ یونہی ہوگا ۔ پھر اپنی ایک اور نعمت یاد دلاتا ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے ، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک منزل میں اترے ، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دئے ۔ ایک اعرابی نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسے کھینچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا اب بتا کہ مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً بعد جواب دیا کہ { اللہ عزوجل } ، اس نے پھر یہی سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا ، تیسری مرتبہ کے جواب کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو آواز دی اور جب وہ آ گئے تو ان سے سارا واقعہ کہہ دیا ۔ اعرابی اس وقت بھی موجود تھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4135) قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ” کچھ لوگوں نے دھوکے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے اس اعرابی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھات میں بھیجا تھا لیکن اللہ نے اسے ناکام اور نامراد رکھا «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ اس اعرابی کا نام صحیح احادیث میں غوث بن حارث آیا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو قتل کرنے کے ارادہ سے زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کردی ، لیکن اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچ رہے ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کعب بن اشرف اور اس کے یہودی ساتھیوں نے اپنے گھر میں بلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچانا چاہا تھا } ۔ ابن اسحاق رحمۃ اللہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو نضیر کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے چکی کا پاٹ قلعہ کے اوپر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر گرانا چاہتا تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عامری لوگوں کی دیت کے لینے کیلئے ان کے پاس گئے تھے تو ان شریروں نے عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچے کھڑا کر کے باتوں میں مشغول کر لیں گے تو اوپر سے یہ پھینک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کر دینا لیکن راستے میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرارت و خباثت سے آگاہ کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مع اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے وہیں سے پلٹ گئے ۔ اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، ’ مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے جو کفایت کرنے والا ، حفاظت کرنے والا ہے ‘ ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم سے بنو نضیر کی طرف مع لشکر گئے ، محاصرہ کیا ، وہ ہارے اور انہیں جلا وطن کر دیا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11560)