سورة التکاثر - آیت 1

أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

لوگو ! تمہیں کثرت کی چاہت (١) نے اللہ کی یاد سے غافل کردیا ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مال و دولت اور اعمال ارشاد ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت ، اس کے پا لینے کی کوشش نے تمہیں آخرت کی طلب اور نیک کاموں سے بےپرواہ کر دیا ، تم اسی دنیا کی ادھیڑ بن میں رہے کہ اچانک موت آ گئی اور تم قبروں میں پہنچ گئے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اطاعت پروردگار سے تم نے دنیا کی جستجو میں پھنس کر بےرغبتی کر لی اور مرتے دم تک غفلت برتی “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف ولا اصل لہ) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مال اور اولاد کی زیادتی کی ہوس میں موت کا خیال پرے پھینک دیا صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے کہ { سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم «لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَم وَادٍ مِنْ ذَہَب» یعنی اگر ابن آدم کے پاس ایک جنگل بھر کر سونا ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6440) اسے قرآن کی آیت ہی سمجھتے رہے ، یہاں تک کہ «أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ» ۱؎ (102-التکاثر:1) نازل ہوئی ۔ مسند احمد میں ہے { سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب آیا تو آپ اس آیت کو پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا : ” ابن آدم کہتا رہتا ہے کہ میرا مال ، میرا مال ، حالانکہ تیرا مال صرف وہ ہے جسے تو نے کھا کر فنا کر دیا یا پہن کر پھاڑ دیا یا صدقہ دے کر باقی رکھ لیا “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2958) صحیح مسلم میں اتنا اور زیادہ ہے کہ { اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو لوگوں کے لیے چھوڑ چھاڑ کر چل دے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2959) صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ { میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں جن میں سے دو تو پلٹ آتی ہیں صرف ایک ساتھ رہ جاتی ہے ، گھر والے ، مال اور اعمال ۔ اہل و مال لوٹ آئے عمل ساتھ رہ گئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6514) مسند احمد کی حدیث میں ہے { ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن دو چیزیں اس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور امنگ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6421) ضحاک رحمہ اللہ نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک درہم دیکھ کر پوچھا یہ درہم کس کا ہے ؟ اس نے کہا میرا ، فرمایا : تیرا تو اس وقت ہو گا کہ کسی نیک کام میں تو خرچ کر دے یا بطور شکر رب کے خرچ کر ۔ احنف رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کر کے پھر یہ شعر پڑھا : «أَنْتَ لِلْمَالِ إِذَا أَمْسَکْتہ *** فَإِذَا أَنْفَقْتہ فَالْمَال لَک» یعنی ” جب کہ تو مال کو لیے بیٹھا ہے ، تو تو مال کی ملکیت ہے ہاں جب اسے خرچ کر دے گا اس وقت مال تیری ملکیت میں ہو جائے گا “ ۔ ابن بریدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں بنو حارثہ اور بنو حارث انصار کے قبائل آپس میں فخر و غرور کرنے لگے ایک کہتا دیکھو ہم میں فلاں شخص ایسا بہادر ایسا جیوٹ یا اتنا بڑا مالدار وغیرہ ہے، دوسرے قبیلے والے اپنے میں سے ایسوں کو پیش کرتے تھے جب زندوں کے ساتھ یہ فخر و مباہات کر چکے تو کہنے لگے آؤ قبرستان میں چلیں وہاں جا کر اپنے اپنے مردوں کی قبروں کی طرف اشارے کر کے کہنے لگے بتلاؤ اس جیسا بھی تم میں کوئی گزرا ہے ؟ وہ انہیں اپنے مردوں کے ساتھ الزام دینے لگے اس پر یہ دونوں ابتدائی آیتیں اتریں کہ تم فخر و مباہات کرتے ہوئے قبرستان میں پہنچ گئے اور اپنے مردوں پر بھی فخر و غرور کرنے لگے ، چاہیئے تھا کہ یہاں آ کر عبرت حاصل کرتے اپنا مرنا اور سڑنا گلنا یاد کرتے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنی زیادتی اور اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک ایک ہو کر قبروں میں پہنچ گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ بہتات کی چاہت نے غفلت میں ہی رکھا یہاں تک کہ مر گئے اور قبروں میں دفن ہو گئے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی بیمار پرسی کو گئے اور حسب عادت فرمایا : ” کوئی ڈر خوف نہیں ان شاءاللہ گناہوں سے پاکیزگی حاصل ہو گی “ ، تو اس نے کہا : آپ اسے خوب پاک بتلا رہے ہیں یہ تو وہ بخار ہے جو بوڑھے بڑوں پر جوش مارتا ہے اور قبرستان تک پہنچا کر رہتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اچھا پھر یوں ہی سہی “ } ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5656) اس حدیث میں بھی لفظ «تُزِیرہُ الْقُبُور» ہے اور یہاں قرآن میں بھی «زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ» ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مر کر قبر میں دفن ہونا ہی ہے ۔ ترمذی میں ہے { سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب تک یہ آیت نہ اتری ہم عذاب قبر کے بارے میں شک میں ہی رہے } ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:3355،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کی پھر کچھ دیر سوچ کر فرمانے لگے : میمون ! قبروں کا دیکھنا تو صرف بطور زیارت ہے اور ہر زیارت کرنے والا اپنی جگہ لوٹ جاتا ہے یعنی خواہ جنت کی طرف خواہ دوزخ کی طرف ، ایک اعرابی نے بھی ایک شخص کی زبانی ان دونوں آیتوں کی تلاوت سن کر یہی فرمایا تھا کہ اصل مقام اور ہی ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ دھمکاتے ہوئے دو دو مرتبہ فرماتا ہے کہ حقیقت حال کا علم تمہیں ابھی ہو جائے گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے مراد کفار ہیں دوبارہ مومن مراد ہیں پھر فرماتا ہے کہ اگر تم علم یقینی کے ساتھ اسے معلوم کر لیتے یعنی اگر ایسا ہوتا تو تم غفلت میں نہ پڑتے اور مرتے دم تک اپنی آخری منزل آخرت سے غافل نہ رہتے پھر جس چیز سے پہلے دھمکایا تھا اسی کا بیان کر رہا ہے کہ تم جہنم کو ان آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس کی ایک ہی جنبش کے ساتھ اور تو اور انبیاء علیہم السلام بھی ہیبت و خوف کے مارے گھٹنوں کے بل گر جائیں گے ، اس کی عظمت اور دہشت ہر دل پر چھائی ہوئی ہو گی ، جیسے کہ بہت سی احادیث میں بہ تفصیل مروی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اس دن تم سے نعمتوں کی باز پرس ہو گی ، صحت ، امن ، رزق وغیرہ تمام نعمتوں کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کا شکر کہاں تک ادا کیا ۔ ابن ابی حاتم کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ { ٹھیک دوپہر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے چلے دیکھا تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی مسجد میں آ رہے ہیں پوچھا : کہ ” اس وقت کیسے نکلے ہو ؟ “ کہا : اے اللہ کے رسول ! جس چیز نے آپ کو نکالا ہے اسی نے مجھے بھی نکالا ہے ، اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی آ گئے ان سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال کیا اور آپ نے بھی یہی جواب دیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں بزرگوں سے باتیں کرنی شروع کیں ، پھر فرمایا : ” اگر ہمت ہو تو اس باغ تک چلے چلو کھانا پینا مل ہی جائے گا اور سائے دار جگہ بھی ، ہم نے کہا بہت اچھا “ ، پس آپ ہمیں لے کر سیدنا ابوالہیشم انصاری رضی اللہ عنہ کے باغ کے دروازہ پر آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور اجازت چاہی ، سیدہ ام ہیثم انصاریہ رضی اللہ عنہا دروازے کے پیچھے ہی کھڑی تھیں سن رہی تھیں لیکن اونچی آواز سے جواب نہیں دیا اور اس لالچ سے کہ اللہ کے رسول اور زیادہ سلامتی کی دعا کریں اور کئی کئی مرتبہ آپ کا سلام سنیں جب تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کر چکے اور کوئی جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے دئیے ، اب تو ابوالہیشم کی بیوی صاحبہ دوڑیں اور کہا : اے اللہ کے نبی ! میں آپ کی آواز سن رہی تھی لیکن میرا ارادہ تھا کہ اللہ کرے آپ کئی کئی مرتبہ سلام کریں اس لیے میں نے اپنی آواز آپ کو نہ سنائی ، آپ آئیے تشریف لے چلئے ، آپ نے ان کے اس فعل کو اچھی نظروں سے دیکھا پھر پوچھا کہ خود ابوالہیشم کہاں ہیں مائی صاحبہ نے فرمایا : اے اللہ کے نبی ! وہ بھی یہیں قریب ہی پانی لینے گئے ہیں ، آپ تشریف لائیے ، ان شاءاللہ آتے ہی ہوں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں رونق افروز ہوئے ، مائی صاحبہ نے ایک سایہ دار درخت تلے کچھ بچھا دیا جس پر آپ بیٹھ گئے، اتنے میں ہی ابوالہیشم رضی اللہ عنہ بھی آ گئے بےحد خوش ہوئے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون نصیب ہوا اور جلدی جلدی ایک کھجور کے درخت پر چڑھ گئے اور اچھے اچھے خوشے اتار اتار کر دینے لگے یہاں تک کہ خود آپ نے روک دیا ، صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! گیلی اور تر اور بالکل پکی اور جس طرح کی چاہیں تناول فرمائیں ، جب کھجوریں کھا چکے تو میٹھا پانی لائے جسے پیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے } ۔ ۱؎ (اسنادہ ضعیف) ابن جریر کی اسی حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر ، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور پوچھا کہ ” یہاں کیسے بیٹھے ہو ؟ “ دونوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بھوک کے مارے گھر سے نکل کھڑے ہوئے ہیں ، فرمایا : ” اس اللہ کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے میں بھی اسی وجہ سے اس وقت نکلا ہوں “ اب آپ انہیں لے کر چلے اور ایک انصاری کے گھر آئے ان کی بیوی صاحبہ مل گئیں پوچھا کہ ” تمہارے میاں کہاں گئے ہیں ؟ “ کہا : گھر کے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں ، اتنے میں تو وہ مشک اٹھائے ہوئے آ ہی گئے ، خوش ہو گئے اور کہنے لگے مجھ جیسا خوش قسمت آج کوئی بھی نہیں جس کے گھر اللہ کے نبی تشریف لائے ہیں ، مشک تو لٹکا دی اور خود جا کر کھجوروں کے تازہ تازہ خوشے لے آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” چن چن کر الگ کر کے لاتے “ تو جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے چاہا کہ آپ اپنی طبیعت کے مطابق اپنی پسند سے چن لیں اور نوش فرمائیں ، پھر چھری ہاتھ میں اٹھائی کہ کوئی جانور ذبح کر کے گوشت پکائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دودھ دینے والے جانور ذبح نہ کرنا “ چنانچہ اس نے ذبیحہ کیا آپ نے وہیں کھانا کیا ، پھر فرمانے لگے : ” دیکھو ! بھوکے گھر سے نکلے اور پیٹ بھرے جا رہے ہیں یہی وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہو گا “ } ۱؎ (صحیح مسلم:2038) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد غلام سیدنا ابوعسیب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی میں نکلا پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلایا پھر کسی انصاری کے باغ میں گئے اور اس سے فرمایا :” لاؤ بھائی کھانے کو دو “ ، وہ انگور کے خوشے اٹھا لائے اور آپ کے سامنے رکھ دئیے آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے کھائے ، پھر فرمایا : ” ٹھنڈا پانی پلاؤ “ ، وہ لائے آپ نے پیا پھر فرمانے لگے : ” قیامت کے دن اس سے باز پرس ہو گی “ ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ خوشہ اٹھا کر زمین پر دے مارا اور کہنے لگے اس کے بارے میں بھی اللہ کے ہاں پرسش ہو گی ۔ آپ نے فرمایا : ” ہاں صرف تین چیزوں کی پرسش نہیں ۔ پردہ پوشی کے لائق کپڑا ، بھوک روکنے کے قابل ٹکڑا اور سردی گرمی میں سر چھپانے کے لیے مکان “ } ۔ ۱؎ ( مسند احمد:81/5:حسن) مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ { جب یہ سورت نازل ہوئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے ہم سے کس نعمت کا سوال ہو گا ؟ کھجوریں کھا رہے ہیں اور پانی پی رہے ہیں ، تلواریں گردنوں میں لٹکا رہے ہیں اور دشمن سر پر کھڑا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” گھبراؤ نہیں عنقریب نعمتیں آ جائیں گی “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:429/5:حسن) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور نہائے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! اس وقت تو آپ خوش و خرم نظر آتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں “ ، پھر لوگ تونگری کا ذکر کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو اس کے لیے تونگری کوئی بری چیز نہیں اور یاد رکھو متقی شخص کے لیے صحت تونگری سے بھی اچھی ہے اور خوش نفسی بھی اللہ کی نعمت ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد::375/5:صحیح) ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ترمذی شریف میں ہے { نعمتوں کے سوال میں قیامت والے دن سب سے پہلے یہ کہا جائے گا کہ ہم نے تجھے صحت نہیں دی تھی اور ٹھنڈے پانی سے تجھے آسودہ نہیں کیا کرتے تھے ؟ } ۱؎ (سنن ترمذی:3358،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ { اس آیت «ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیمِ» (102-التکاثر:8) کو سنا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! ہم تو جو کی روٹی اور وہ بھی آدھا پیٹ کھا رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ کیا تم پیر بچانے کے لیے جوتیاں نہیں پہنتے اور کیا تم ٹھنڈے پانی نہیں پیتے ؟ یہی قابل پرسش نعمتیں ہیں } ۔ ۱؎ (الدر المنثور السیوطی:661/6:اسنادہ ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { امن اور صحت کے بارے میں سوال ہو گا } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:285/30:اسنادہ ضعیف) { پیٹ بھر کھانے ٹھنڈے پانی سائے دار گھروں میٹھی نیند کے بارے میں بھی سوال ہو گا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:اسنادہ ضعیف) شہد پینے ، لذت حاصل کرنے ، صبح و شام کے کھانے ، گھی شہد اور میدے کی روٹی وغیرہ ، غرض ان تمام نعمتوں کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہو گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بدن کی صحت ، کانوں اور آنکھوں کی صحت کے بارے میں بھی سوال ہو گا کہ ان طاقتوں سے کیا کیا کام کیے ۔ جیسے قرآن کریم میں ہے «إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلٰ أُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولًا» ۱؎ (17-الاسراء:36) یعنی ’ ہر شخص سے اس کے کان ، اس کی آنکھ اور اس کے دل کے بارے میں بھی پوچھ ہو گی ‘ ۔ صحیح بخاری وغیرہ کی حدیث میں ہے { دو نعمتوں کے بارے میں لوگ بہت ہی غفلت برت رہے ہیں ۔ صحت اور فراغت } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6421) یعنی نہ تو ان کا پورا شکر ادا کرتے ہیں اور ان کی عظمت کو جانتے ہیں نہ انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق صرف کرتے ہیں ۔ مسند بزار میں ہے { تہ بند کے سوا ، سائے دار دیواروں کے سوا اور روٹی کے ٹکڑے کے سوا ہر چیز کا قیامت کے دن حساب دینا پڑے گا } ۔ ۱؎ (مسند بزار:3643:ضعیف) مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ { اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا ، اے ابن آدم ! میں نے تجھے گھوڑوں پر اور اونٹوں پر سوار کرایا ۔ عورتیں تیرے نکاح میں دیں تجھے مہلت دی کہ تو ہنسی خوشی آرام و راحت سے زندگی گزارے اب بتا کہ اس کا شکریہ کہاں ہے } ؟ ۱؎ (صحیح مسلم:2968) اللہ کے فضل و کرم سے سورۃ اتکاثر کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ»