فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
لیکن انسان کو جب اس کا رب آزماتا (٧) ہے، پس اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمت سے نوازتا ہے، تو کہتا ہے کہ میرے رب نے میرا اکرام کیا ہے
وسعت رزق کو اکرام نہ سمجھو بلکہ امتحان سمجھو مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے «أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدٰہُمْ بِہِ مِنْ مَالٍ وَبَنِینَ» * «نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَلْ لَا یَشْعُرُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:55-56) الخ یعنی ’ مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے ‘ ۔ اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسی لیے یہاں «کَلَّا» کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس میں تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کا مدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گزاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے ۔ پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا ، حدیث میں ہے کہ { سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگلی اٹھا کر فرمایا : ” میں اور یتیم کو پالنے والا جنت میں ایسے ہوں گے یعنی قریب قریب “ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3679:ضعیف) ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ { کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے “ } ۱؎ (صحیح بخاری:6005) پھر فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنے ، انہیں کھانا پینا دینے کی ، ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال ہو یا حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بے حد ہے ۔