إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
بے شک ہم نے قرآن حق کے ساتھ نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اللہ کی دی ہوئی بصیرت کے مطابق فیصلہ (110) کریں، اور آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے دفاع کرنے والے نہ بن جائیے
حقیقت چھپ نہیں سکتی اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر اللہ نے اتارا ہے وہ مکمل طور پر اور ابتداء تا انتہا حق ہے ، اس کی خبریں بھی حق اس کے فرمان بھی برحق ۔ پھر فرماتا ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان وہ انصاف کرو جو اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھائے ۔ بعض علمائے اصول نے اس سے استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتہاد سے حکم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا ، اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے اور فرمانے لگے میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کر اس کے حق میں فیصلہ دے دوں اور جس کے حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ لے کہ وہ اس کے لیے جہنم کا ٹکڑا ہے اب اسے اختیار ہے کہ لے لے یا چھوڑ دے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2680) مسند احمد میں ہے کہ { دو انصاری ایک ورثے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا قضیہ لائے واقعہ کو زمانہ گذر چکا تھا دونوں کے پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے فیصلے کی بنا پر اپنے بھائی کا حق نہ لے لے اگر ایسا کرے گا تو قیامت کے دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ لٹکا کر آئے گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے لگے اور ہر ایک کہنے لگا میں اپنا حق بھی اپنے بھائی کو دے رہا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم جاؤ اپنے طور پر جہاں تک تم سے ہو سکے ٹھیک ٹھیک حصے تقسیم کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے لو اور ہر ایک دوسرے کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کر دو ۔ } ابوداؤد میں بھی یہ حدیث ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ { میں تمہارے درمیان اپنی سمجھ سے ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں ہوتی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:308/6،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن مردویہ میں ہے کہ { انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا وہاں ایک شخض کی ایک چادر کسی نے چرالی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا ۔ چور نے اس چادر کو ایک شخص کے گھر میں اس کی بے خبری میں ڈال دیا اور اپنے کنبہ قبیلے والوں سے کہا میں نے چادر فلاں کے گھر میں ڈال دی ہے تم رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے ذکر کرو کہ ہمارا ساتھی تو چور نہیں چور فلاں ہے اور ہم نے پتہ لگا لیا ہے کہ چادر بھی اس کے گھر میں موجود ہے اس طرح آپ ہمارے ساتھی کی تمام لوگوں کی روبرو بریت کر دیجئے اور اس کی حمایت کیجئے ورنہ ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا ۔ } اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے جھوٹ کو پوشیدہ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے ان کے بارے میں «یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُونَ مِنَ اللہِ وَہُوَ مَعَہُمْ إِذْ یُبَیِّتُونَ مَا لَا یَرْضَیٰ مِنَ الْقَوْلِ ۚ وَکَانَ اللہُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطًا » ۱؎ (4-النساء:108) سے دو آیتیں نازل ہوئیں ۔ پھر اللہ عزوجل نے فرمایا جو برائی اور بدی کا کام کرے اس سے مراد بھی یہی لوگ ہیں اور چور کے اور اس کے حمایتوں کے بارے میں اترا کہ جو گناہ اور خطا کرے اور ناکردہ گناہ کے ذمہ الزام لگائے وہ بہتان باز اور کھلا گنہگار ہے ، لیکن یہ سیاق غریب ہے بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ یہ آیت بنوابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10413/9:ضعیف)