فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ
میں قسم (٢) کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ستاروں کی
ستارے، نیل گائے اور ہرن سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { میں نے صبح کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سورۃ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اس نماز میں میں بھی مقتدیوں میں شامل تھا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:456) یہ ستاروں کی قسمیں کھائی گئی ہیں ، جو دن کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہیں یعنی چھپ جاتے ہیں ، اور رات کو ظاہر ہوتے ہیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں اور بھی صحابہ تابعین وغیرہ سے اس کی یہی تفسیر مروی ہے - بعض ائمہ نے فرمایا ہے طلوع کے وقت ستاروں کو «خُنَّسِ» کہا جاتا ہے اور اپنی اپنی جگہ پر انہیں «جَوَارِ» کہا جاتا ہے اور چھپ جانے کے وقت انہیں «کُُنَّسِ» کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے اس سے مراد جنگلی گائے ہے ، یہ بھی مروی ہے کہ مراد ہرن ہے ۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے مجاہد رحمہ اللہ سے اس کے معنی پوچھے تو مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ” ہم نے اس بارے میں کچھ نہیں سنا البتہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ستارے ہیں “ ۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ جو تم نے سنا ہو وہ کہو تو فرمایا ” ہم سنتے ہیں کہ اس سے مراد نیل گائے ہے ، جبکہ وہ اپنی جگہ چھپ جائے “ ۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا ” وہ مجھ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے «أَسْفَلَ» کو اعلیٰ اور اعلی کو «أَسْفَلَ» کا ضامن بنایا “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس میں سے کسی کی تعیین نہیں کی اور فرمایا ہے ” ممکن ہے تینوں چیزیں مراد ہوں یعنی ستارے ، نیل گائے اور ہرن “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12/467) «عَسْعَسَ» کے معنی ہیں اندھیری والی ہوئی اور اٹھ کھڑی ہوئی ، اور لوگوں کو ڈھانپ لیا اور جانے لگی ۔ صبح کی نماز کے وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نکلے اور فرمانے لگے کہ ” وتر کے بارے میں پوچھنے والے کہاں ہیں ؟ “ پھر یہ آیت پڑھی ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں کہ معنی یہ ہیں کہ رات جب جانے لگے کیونکہ اس کے مقابلہ میں ہے کہ جب صبح چمکنے لگے ۔ شاعروں نے «عَسْعَسَ» کو «أَدْبَرَ» کے معنی میں باندھا ہے میرے نزدیک ٹھیک معنی یہ ہیں کہ قسم ہے رات کی جب وہ آئے اور اندھیرا پھیلائے اور قسم ہے دن کی جب وہ آئے اور روشنی پھیلائے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّیٰ» ۱؎ (92-اللیل:2،1) اور جگہ ہے «وَالضٰحَیٰ وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَیٰ» ۱؎ (93-الضحی:2،1) اور جگہ ہے «فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ» ۱؎ (6-الأنعام:96) اور بھی اس قسم کی آیتیں بہت سی ہیں مطلب سب کا یکساں ہے ، ہاں بیشک اس لفظ کے معنی پیچھے ہٹنے کے ہی ہیں ۔ علماء اصول نے فرمایا ہے کہ یہ لفظ آگے آنے اور پیچھے جانے کے دونوں معنی میں آتا ہے ۔ اس بناء پر دونوں معنی ٹھیک ہو سکتے ہیں ۔ «واللہ اعلم» ’ اور قسم ہے صبح کی جبکہ وہ طلوع ہو اور روشنی کے ساتھ آئے ‘ ۔ پھر ان قسموں کے بعد فرمایا ہے کہ ’ یہ قرآن ایک بزرگ ، شریف ، پاکیزہ رو ، خوش منظر فرشتے کا کلام ہے [ یعنی جبرائیل علیہ السلام کا ] ، وہ قوت والے ہیں ‘ ۔ جیسے کہ اور جگہ ہے «عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیٰ» ۱؎ (53-النجم:6،5) یعنی ’ سخت مضبوط اور سخت پکڑ اور فعل والا فرشتہ ، وہ اللہ عز و جل کے پاس جو عرش والا ہے بلند پایہ اور ذی مرتبہ ہے ‘ ۔ وہ نور کے ستر پردوں میں جا سکتے ہیں اور انہیں عام اجازت ہے ۔ ان کی بات وہاں سنی جاتی ہے ، برتر فرشتے ان کے فرمانبردار ہیں ، آسمانوں میں ان کی سرداری ہے اور فرشتے ان کے تابع فرمان ہیں ۔ وہ اس پیغام رسانی پر مقرر ہیں کہ اللہ کا کلام اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائیں ، یہ فرشتے اللہ کے امین ہیں ۔