وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا
اور تمہاری نیند کو ہم نے باعث راحت بنایا
1 پھر فرماتا ہے ’ ہم نے تمہاری نیند کو حرکت کے ساکن ہونے کا سبب بنایا تاکہ آرام اور اطمینان حاصل کر لو ، اور دن بھر کی تھکان کسل اور ماندگی دور ہو جائے ‘ ، اسی معنی کی اور آیت سورۃ الفرقان میں بھی گزر چکی ہے ، ’ رات کو ہم نے لباس بنایا کہ اس کا اندھیرا اور سیاہی سب لوگوں پر چھا جاتی ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ارشاد فرمایا «وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:4) ’ قسم ہے رات کی جبکہ وہ ڈھانپ لے ‘ ۔ عرب شاعر بھی اپنے شعروں میں رات کو لباس کہتے ہیں ۔ قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ” رات سکون کا باعث بن جاتی ہے “ اور برخلاف رات کے دن کو ہم نے روشن ، اجالے والا اور بغیر اندھیرے کے بنایا ہے ، تاکہ تم اپنا کام دھندا اس میں کر سکو جا آ سکو ۔ بیوپار ، تجارت ، لین دین کر سکو اور اپنی روزیاں حاصل کر سکو ، ہم نے جہاں تمہیں رہنے سہنے کو زمین بنا دی وہاں ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے جو بڑے لمبے چوڑے پختہ عمدہ اور زینت والے ہیں ، تم دیکھتے ہو کہ اس میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے لگ رہے ہیں بعض چلتے پھرتے رہتے ہیں اور بعض ایک جگہ قائم ہیں ۔ پھر فرمایا ’ ہم نے سورج کو چمکتا چراغ بنایا جو تمام جہان کو روشن کر دیتا ہے ہر چیز کو جگمگا دیتا ہے اور دنیا کو منور کر دیتا ہے اور دیکھو کہ ہم نے پانی کی بھری بدلیوں سے بکثرت پانی برسایا ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” ہوائیں چلتی ہیں ، ادھر سے ادھر بادلوں کو لے جاتی ہیں اور پھر ان بادلوں سے خوب بارش برستی ہے اور زمین کو سیراب کرتی ہے “ اور بھی بہت سے مفسرین نے یہی فرمایا ہے ۔ «الْمُعْصِرَاتِ» سے مراد بعض نے تو ہوا مراد لی ہے اور بعض نے بادل جو ایک ایک قطرہ پانی برساتے رہتے ہیں ۔ «امْرَأَۃٌ مُعْصِرٌ» عرب میں اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہو ، لیکن اب تک حیض جاری نہ ہوا ہو ۔ حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے فرمایا «مُعْصِرَاتِ» سے مراد آسمان ہے ، لیکن یہ قول غریب ہے سب سے زیادہ ظاہر قول یہ ہے کہ مراد اس سے بادل ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے «اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا» ۱؎ (30-الروم:48) ’ اللہ تعالیٰ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو ابھارتی ہیں اور انہیں پروردگار کی منشاء کے مطابق آسمان میں پھیلا دیتی ہیں اور انہیں وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ ان کے درمیان سے پانی نکلتا ہے ‘ ۔ «ثَجَّاجًا» کے معنی خوب لگاتار بہنے کے ہیں جو بکثرت بہہ رہا ہو اور خوب برس رہا ہو ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:400/12) «ثَجّاجًا» کی تشریح: ایک حدیث میں ہے { «أَفْضَلُ الْحَجِّ الْعَجٰ وَالثَّجٰ» افضل حج وہ ہے جس میں «لبیک» خوب پکاری جائے اور خون بکثرت بہایا جائے یعنی قربانیاں زیادہ کی جائیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:827،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس حدیث میں بھی لفظ «ثَّجٰ» ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ { استحاضہ کا مسئلہ پوچھنے والی ایک صحابیہ عورت رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { تم روئی کا پھایا رکھ لو } ، اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! وہ تو بہت زیادہ ہے میں تو ہر وقت خون بکثرت بہاتی رہتی ہوں۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:287،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس روایت میں بھی لفظ «أَثُجّ ثَجًّا» ہے یعنی بےروک برابر خون آتا رہتا ہے ، تو یہاں اس آیت میں بھی مراد یہی ہے کہ پانی ابر سے بکثرت برستا رہتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ’ پھر ہم اس پانی سے جو پاک ، صاف ، بابرکت ، نفع بخش ہے ، اناج اور دانے پیدا کرتے ہیں جو انسان حیوان سب کے کھانے میں آتے ہیں اور سبزیاں اگاتے ہیں جو تروتازہ کھائی جاتی ہیں اور اناج کھلیان میں رکھا جاتا ہے پھر کھایا جاتا ہے اور باغات اس پانی سے پھلتے پھولتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقوں ، رنگوں ، خوشبوؤں والے میوے اور پھل پھول پیدا ہوتے ہیں گو کہ زمین کے ایک ہی ٹکڑے پر وہ ملے جلے ہیں ‘ ۔ «أَلْفَافًا» کے معنی جمع کے ہیں اور جگہ ہے «وَفِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مٰتَجٰوِرٰتٌ وَّجَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یٰسْقٰی بِمَاءٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ» ۱؎ (13-الرعد:4) ’ زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں جو آپس میں ملے جلے ہیں اور انگور کے درخت ، کھیتیاں ہیں ، کھجور کے درخت ، بعض شاخ دار ، بعض زیادہ شاخوں کے بغیر ، اور وہ سب ایک ہی پانی سے سیراب کئے جاتے ہیں اور ہم ایک سے ایک کو بڑھ کر میوہ میں زیادہ کرتے ہیں یقیناً عقلمندوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں ‘ ۔