مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا
اس جنت میں اونچی مسندوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے وہاں نہ دھوپ دیکھیں گے نہ سخت سردی
دائمی خوشگوار موسم اور مسرتوں سے بھرپور زندگی اہل جنت کی نعمت ، راحت ، ان کے ملک و مال اور جاہ و منال کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ یہ لوگ بہ آرام تمام پورے اطمینان اور خوش دلی کے ساتھ جنت کے مرصع ، مزین ، جڑاؤ تختوں پر بےفکری سے تکیے لگائے سرور اور راحت سے بیٹھے مزے لوٹ رہے ہوں گے ‘ ۔ سورۃ الصافات کی تفسیر میں اس کی پوری شرح گزر چکی ہے ، وہیں یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ «اِتکَّاً» سے مراد لیٹنا ہے یا کہنیاں ٹکانا ہے یا چار زانو بیٹھنا ہے یا کمر لگا کر ٹیک لگانا ہے ، اور یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ «اَرَائِک» چھپرکھٹوں کو کہتے ہیں ۔ پھر ایک اور نعمت بیان ہو رہی ہے کہ ’ وہاں نہ تو سورج کی تیز شعاعوں سے انہیں کوئی تکلیف پہنچے نہ جاڑے کی بہت سرد ہوائیں انہیں ناگوار گزریں بلکہ بہار کا موسم ہر وقت اور ہمیشہ رہتا ہے گرمی سردی کے جھمیلوں سے الگ ہیں ، جنتی درختوں کی شاخیں جھوم جھوم کر ان پر سایہ کئے ہوئے ہوں گی اور میوے ان سے بالکل قریب ہوں گے چاہے لیٹے لیٹے توڑ کر کھا لیں ، چاہے بیٹھے بیٹھے لے لیں چاہے کھڑے ہو کر لے لیں درختوں پر چڑھنے اور تکلیف کی کوئی حاجت نہیں سروں پر میوے دار گچھے اور لدے ہوئے لچھے لٹک رہے ہیں توڑا اور کھا لیا اگر کھڑے ہیں تو میوے اتنے اونچے ہیں بیٹھے تو قدرے جھک گئے لیٹے تو اور قریب آ گئے ، نہ تو کانٹوں کی رکاوٹ نہ دوری کی سردردی ہے ‘ ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت کی زمین چاندی کی ہے اور اس کی مٹی مشک خالص ہے ، اس کے درختوں کے تنے سونے چاندی کے ہیں ، ڈالیاں لولو زبرجد اور یاقوت کی ہیں، ان کے درمیان پتے اور پھل ہیں جن کے توڑنے میں کوئی دقت اور مشکل نہیں چاہو بیٹھے بیٹھے توڑ لو ، چاہو کھڑے کھڑے ، بلکہ اگر چاہیں لیٹے لیٹے ـ ایک طرف خوش خرام، خوش دل، خوبصورت، با ادب، سلیقہ شعار، فرمانبردار خادم قسم قسم کے کھانے چاندی کی کشتیوں میں لگائے لیے کھڑے ہیں ۔ دوسری جانب شراب طہور سے چھلکتے ہوئے بلوریں جام لیے ساقیان مہوش اشارے کے منتظر ہیں، یہ گلاس صفائی میں شیشے جیسے اور سفیدی میں چاندی جیسے ہوں گے، دراصل ہوں گے چاندی کے لیکن شیشے کی طرح شفاف ہوں گے کہ اندر کی چیز باہر سے نظر آئے، جنت کی تمام چیزوں کی یونہی سی برائے نام مشابہت دنیا کی چیزوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ان چاندی کے بلوریں گلاسوں کی کوئی نظیر نہیں ملتی، ہاں یہ یاد رہے کہ پہلے کے لفظ «قواریر» پر زبر تو اس لیے ہے کہ وہ «کان» کی خبر ہے اور دوسرے پر زبر یا تو بدلیت کی بنا پر ہے یا تمیز کی بنا پر، پھر یہ جام نپے تلے ہوئے ہیں ساقی کے ہاتھ میں بھی زیب دیں اور ان کی ہتھیلیوں پر بھلے معلوم ہوں اور پینے والوں کے حسب خواہش شراب طہور اس میں سما جائے جو نہ بچے نہ گھٹے۔ ان نایاب گلاسوں میں جو پاک خوش ذائقہ اور سرور والی بے نشے کی شراب انہیں ملے گی وہ جنت کی نہر «سلسبیل» کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی، اوپر گزر چکا ہے کہ نہر کافور کے پانی سے مخلوط کر کے دی جائے گی تو مطلب یہ ہے کبھی اسی ٹھنڈک والے سرد مزاج پانی سے ، کبھی اس نفیس گرم مزاج پانی سے تاکہ اعتدال قائم رہے، یہ ابرار لوگوں کا ذکر ہے اور خاص مقربین خالص اس نہر کا شربت پئیں گے ۔