سورة القيامة - آیت 33

ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر وہ اپنے بال بچوں کی طرف اکڑتا ہوا چل دیا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 ہاں جھٹلانے اور منہ موڑنے میں بے باک تھا اور اپنے اس ناکارہ عمل پر اتراتا اور پھولتا ہوا بے ہمتی اور بد عملی کے ساتھ اپنے والوں میں جا ملتا تھا ، جیسے اور جگہ ہے «وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَیٰ أَہْلِہِمُ انقَلَبُوا فَکِہِینَ» ۱؎ (83-المطففین:31) یعنی ’ جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں تو خوب باتیں بناتے ہوئے مزے کرتے ہوئے خوش خوش جاتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «إِنَّہُ کَانَ فِی أَہْلِہِ مَسْرُورًا إِنَّہُ ظَنَّ أَن لَّن یَحُورَ بَلَیٰ إِنَّ رَبَّہُ کَانَ بِہِ بَصِیرًا» ۱؎ (84-الإنشقاق:13-15) یعنی ’ یہ اپنے گھرانے والوں میں شادمان تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اللہ کی طرف اسے لوٹنا ہی نہیں ۔ اس کا یہ خیال محض غلط تھا اس کے رب کی نگاہیں اس پر تھیں ‘ ۔ پھر اسے اللہ تبارک و تعالیٰ دھمکاتا ہے اور ڈر سناتا ہے اور فرماتا ہے ’ خرابی ہو تجھے اللہ کے ساتھ کفر کر کے پھر اتراتا ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ» ۱؎ (44-الدخان:49) یعنی قیامت کے دن کافر سے بطور ڈانٹ اور حقارت کے کہا جائے گا کہ ’ لے اب مزہ چکھ تو تو بڑی عزت اور بزرگی والا تھا ‘ ۔ اور فرمان ہے «کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مٰجْرِمُوْنَ» ۱؎ (77-المرسلات:46) ’ کچھ کھا پی لو آخر تو بدکار گنہگار ہو ‘ ۔ اور جگہ ہے «فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ» ۱؎ (39-الزمر:15) ’ جاؤ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو ‘ وغیرہ وغیرہ غرض یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں یہ احکام بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہیں ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے جب یہ آیت «اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی» ۱؎ (75-القیامۃ:34) ، کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ” رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ابوجہل کو فرمایا تھا پھر قرآن میں بھی یہی الفاظ نازل ہوئے “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35734:مرسل) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی کے قریب قریب نسائی میں موجود ہے ، ۱؎ (سنن نسائی:658،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن ابی حاتم میں قتادہ رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اس دشمن رب نے کہا کہ کیا تو مجھے دھمکاتا ہے ؟ اللہ کی قسم تو اور تیرا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے والوں میں سب سے زیادہ ذی عزت میں ہوں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35731:مرسل) کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ اسے کوئی حکم اور کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی ؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں اسے حکم و ممانعت اور آخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزاء و سزا ضرور ملے گی ، مقصود یہاں پر قیامت کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد ہے ، اسی لیے دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان دراصل نطفہ کی شکل میں بے جان و بے بنیاد تھا پانی کا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا پھر خون کی پھٹکی بنی ، پھر گوشت کا لوتھڑا ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت دے کر روح پھونکی اور سالم اعضاء والا انسان بنا کر مرد یا عورت کی صورت میں پیدا کیا ۔ کیا اللہ جس نے نطفہ ضعیف کو ایسا صحیح القامت قوی انسان بنا دیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اسے فنا کر کے پھر دوبارہ پیدا کر دے ؟ یقیناً پہلی مرتبہ کا پیدا کرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے ، یا کم از کم اتنا ہی جتنا پہلی مرتبہ تھا ۔ جیسے فرمایا «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم:27) ’ اس نے ابتداء پیدا کیا وہی پھر لوٹائے گا اور وہ اس پر بہت زیادہ آسان ہے ‘ ۔ اس آیت کے مطلب میں بھی دو قول ہیں ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے جیسے کہ سورۃ الروم کی تفسیر میں اس کا بیان اور تقریر گزر چکی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنی چھت پر باآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس سورت کی آخری آیت کی تلاوت کی تو فرمایا «سُبْحَانک اللَّہُمَّ فَبَلَی» یعنی ” اے اللہ تو پاک ہے اور بیشک قادر ہے “ ، لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا : تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی جواب دیتے ہوئے سنا ہے } ۔ ابوداؤد میں بھی یہ حدیث ہے ۱؎ (سنن ابوداود:884،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن دونوں کتابوں میں اس صحابی کا نام نہیں گو یہ نام نہ ہونا مضر نہیں ۔ ابوداؤد کی اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص تم میں سے سورۃ والتین کی آخری آیت «اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ» ۱؎ (95-التین:8) پڑھے وہ «بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنْ الشَّاہِدِینَ» کہے یعنی ’ ہاں اور میں بھی اس پر گواہ ہوں ‘ اور جو شخص سورۃ قیامت کی آخری آیت «اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یٰحْیِۦ الْمَوْتٰی» ۱؎ (75-القیامۃ:40) پڑھے تو وہ کہے «بَلَی» اور جو سورۃ والمرسلات کی آخری آیت «فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ» ۱؎ (77-المرسلات:50) پڑھے وہ «آمَنَّا بِاَللَّہِ» کہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:887،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ حدیث مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ابن جریر میں قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری آیت کے بعد فرماتے «سُبْحَانک وَبَلَی» } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:35738:) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے جواب میں یہ کہنا ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ سورۃ القیامہ کی تفسیر «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ختم ہوئی ۔