وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اور اگر ہم ان پر فرض (75) کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو، یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑی تعداد کے علاوہ اس حکم کی تعمیل نہ کرتے، اور اگر وہ لوگ وہی کرتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے، تو ان کے لیے زیادہ بہتر، اور انہیں دین پر ثابت قدم رکھنے کے لیے زیادہ موثر ہوتا
عادت جب فطرت ثانیہ بن جائے اور صاحب ایمان کو بشارت رفاقت اللہ خبر دیتا ہے کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ اگر انہیں ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں وہ اس وقت کر رہے ہیں تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے اس لیے کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم الہٰی کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں ، پس اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کی خبر دی ہے جو ظاہر نہیں ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی ؟ اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقیناً ہم کر گزرتے لیکن اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس سے بچا لیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک میری امت میں ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں ایمان پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9926:مرسل و ضعیف) [ ابن ابی حاتم ] اس روایت کی دوسری سند میں ہے کہ کسی ایک صحابہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا سدی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ایک یہودی نے سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ سے فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے اس پر سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے بجا لانے والوں میں ایک سیدنا ابن ام عبد رضی اللہ عنہ بھی ہوتے ہیں } ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف) [ ابن ابی حاتم ] دوسری روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو پڑھ کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے والوں میں سے ایک ہیں } ۔ ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:324/2:مرسل و ضعیف) ارشاد الٰہی ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے احکام بجا لاتے اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے رک جاتے تو یہ ان کے حق میں اس سے بہتر ہوتا کہ وہ حکم کی مخالفت کریں اور ممانعت میں مشغول ہوں ۔ یہی عمل زیادہ سچائی والا ہوتا اسکے نتیجے میں ہم انہیں جنت عطا فرماتے اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے پھر فرماتا ہے جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرے اور منع کردہ کاموں سے باز رہے اسے اللہ تعالیٰ عزت کے گھر میں لے جائے گا نبیوں کا رفیق بنائے گا اور صدیقوں کا جو مرتبے میں نبیوں کے بعد ہیں پھر شہیدوں کا پھر تمام مومنوں کا جنہیں صالح کہا جاتا ہے جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے ان کا ہم جنس بنائے گا خیال تو کرو یہ کیسے پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے صحیح بخاری شریف میں ہے { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے مرض الموت کے زمانے میں دنیا میں رہنے اور آخرت میں جانے کا اختیار دیا جاتا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو شدت نقاہت سے اٹھ نہیں سکتے تھے آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے سنا کہ آپ فرما رہے ہیں ان کا ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا جو نبی ہیں ، صدیق ہیں ، شہید ہیں ، اور نیکوکار ہیں ۔ یہ سن کر مجھے معلوم ہو گیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4463) یہی مطلب ہے جو دوسری حدیث میں آپ کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ { اے اللہ میں بلند و بالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے نکالا پھر فوت ہو گئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4463) علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔ اس آیت کے شان نزول کا بیان ابن جریر میں ہے کہ ایک انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ نے دیکھا کہ سخت مغموم ہیں سبب دریافت کیا تو جواب ملا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تو صبح شام ہم لوگ آپ کی خدمت میں آبیٹھے ہیں دیدار بھی ہو جاتا ہے اور دو گھڑی صحبت بھی میسر ہو جاتی ہے لیکن کل قیامت کے دن تو آپ نبیوں کی اعلیٰ مجلس میں ہوں گے ہم تو آپ تک پہنچ بھی نہ سکیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیج کر انہیں یہ خوشخبری سنا دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9929:مرسل و ضعیف) یہی اثر مرسل سند سے بھی مروی ہے جو سند بہت ہی اچھی ہے ۔ سیدنا ربیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ آپ پر ایمان لانے والوں سے یقیناً بہت ہی بڑا ہے پس جب کہ جنت میں یہ سب جمع ہوں گے تو آپس میں ایک دوسرے کو کیسے دیکھیں گے اور کیسے ملیں گے ؟ پس یہ آیت اتری اور { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوپر کے درجہ والے نیچے والوں کے پاس اتر آئیں گے اور پربہار باغوں میں سب جمع ہوں گے اور اللہ کے احسانات کا ذکر اور اس کی تعریفیں کریں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے ناز و نعم سے ہر وقت رہیں گے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9933:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان سے اپنے اہل عیال سے اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتا ہوں ۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن شوق زیارت مجھے بیقرار کر دیتا ہے صبر نہیں ہو سکتا دوڑتا بھاگتا آتا ہوں اور دیدار کر کے چلا جاتا ہوں لیکن جب مجھے آپ کی اور اپنی موت یاد آتی ہے اور اس کا یقین ہے کہ آپ جنت میں نبیوں کے سب سے بڑے اونچے درجے میں ہوں گے تو ڈر لگتا ہے کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے محروم ہو جاؤں گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی جواب نہیں دیا لیکن یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12559/12:حسن بالشواھد) اس روایت کے اور بھی طریقے ہیں ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:12559:صحیح بالشواھد) صحیح مسلم شریف میں ہے { سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور پانی وغیرہ لا دیا کرتا تھا ایک بار آپ نے مجھ سے فرمایا کچھ مانگ لے میں نے کہا جنت میں میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں فرمایا اس کے سوا اور کچھ ؟ میں نے کہا وہی کافی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری رفاقت کے لیے میری مدد کر بکثرت سجدے کرکے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:489) مسند احمد میں ہے ایک شخص نے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں اللہ کے لا شریک ہونے کی اور آپ کے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا جو مرتے دم تک اسی پر رہے گا وہ قیامت کے دن نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ اس طرح ہو گا پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر اشارہ کر کے بتایا ۔ لیکن یہ شرط ہے کہ ماں باپ کا نافرمان نہ ہو } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد:146/8:ضعیف) مسند احمد میں ہے ’ جس نے اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھیں وہ ان شاءاللہ قیامت کے دن نبیوں کے صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ لکھا جائے گا ۔ ‘ ۱؎ (مسند احمد:437/8،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ترمذی میں ہے ’ سچا امانت دار ، تاجر نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:1209،قال الشیخ الألبانی:حسن) ان سب سے زیادہ زبردست بشارت اس حدیث میں ہے جو صحاح اور مسانید وغیرہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایک زبردست جماعت سے بہ تواتر مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو ایک قوم سے محبت رکھتا ہے لیکن اس سے ملا نہیں تو آپ نے فرمایا [ حدیث ] « اَلمْـَرْءُ مَـعَ مَـنْ اَحَبَّ » { ہر انسان اس کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت رکھتا تھا } سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسلمان جس قدر اس حدیث سے خوش ہوئے اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوئے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3688) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ میری محبت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہے تو مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے بھی انہی کے ساتھ اٹھائے گا گو میرے اعمال ان جیسے نہیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3688) [ یا اللہ تو ہمارے دل بھی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے چاہنے والوں کی محبت سے بھر دے اور ہمارا حشر بھی انہی کے ساتھ کر دے آمین ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جنتی لوگ اپنے سے بلند درجہ والے جنتیوں کو ان کے بالا خانوں میں اس طرح دیکھیں گے جیسے تم چمکتے ستارے کو مشرق یا مغرب میں دیکھتے ہو ان میں بہت کچھ فاصلہ ہو گا صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یہ منزلیں تو انبیاء کرام کے لیے ہی مخصوص ہوں گی ؟ کوئی اور وہاں تک کیسے پہنچ سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان منزلوں تک وہ بھی پہنچیں گے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو سچا جانا اور مانا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3256) ایک حبشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے { آپ فرماتے ہیں جو پوچھنا ہو پوچھو اور سمجھو وہ کہتا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو صورت میں رنگ میں نبوت میں اللہ عزوجل نے ہم پر فضیلت دے رکھی ہے اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لاؤں جس پر آپ ایمان لائے ہیں اور ان احکام کو بجا لاؤں جنہیں آپ بجا لا رہے ہیں تو کیا جنت میں آپ کا ساتھ ملے گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنتی حبشی تو ایسا گورا چٹا ہوکر جنت میں جائے گا کہ اسکا پنڈا ایک ہزار برس کے فاصلے ہی نورانیت کے ساتھ جگمگاتا ہوا نظر آئے گا ۔ } پھر فرمایا { «لا الہ الا اللہ» کہنے والے سے اللہ کا وعدہ ہے اور «سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ» کہنے والے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں } اس پر ایک اور صاحب نے کہا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ حقائق ہیں تو پھر ہم کیسے ہلاک ہو سکتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ایک انسان قیامت کے دن اس قدر اعمال لے کر آئے گا اگر کسی پہاڑ پر رکھے جائیں تو وہ بھی بوجھل ہوئے لیکن ایک نعمت جو کھڑی ہوگئی محض اسکے شکریہ میں یہ اعمال کم نظر آئیں گے ہاں یہ اور بات ہے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے اسے ڈھانک لے اور جنت دے دے } اور یہ آیتیں اتریں «ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْـــًٔا مَّذْکُوْرًا» سے «وَاِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًا کَبِیْرًا» تک ۔ ۱؎ (76-الإنسان:1-20) { تو حبشی صحابی رضی اللہ عنہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جنت میں جن جن چیزوں کو آپ کی آنکھیں دیکھیں گی میری آنکھیں بھی دیکھ سکیں گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں } اس پر وہ حبشی فرط شوق میں روئے اور اس قدر روئے کہ اسی حالت میں فوت ہو گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ان کی نعش مبارک کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں اتار رہے تھے ۱؎ (طبرانی کبیر:13595:ضعیف) یہ روایت غریب ہے اور اس میں اصولی خامیاں بھی ہیں اس کی سند بھی صغیف ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے یہ خاص اللہ کی عنایت اور اس کا فضل ہے اس کی رحمت سے ہی یہ اس کے قابل ہوئے نہ کہ اپنے اعمال سے ، اللہ خوب جاننے والا ہے اسے بخوبی معلوم ہے کہ مستحق ہدایت و توفیق کون ہے ؟