وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ
اور اس دن سے ڈرو (١٠٢) جب کوئی کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا، اور نہ کسی کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی، اور نہ ہی کوئی معاوضہ لیا جائے گا، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی
حشر کا منظر نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا آیت «وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی» ( 35 ۔ فاطر : 18 ) یعنی کسی کا بوجھ کسی پر نہ پڑے گا اور فرمایا «لِکُلِّ امْرِۍ مِّنْہُمْ یَوْمَیِٕذٍ شَاْنٌ یٰغْنِیْہِ» ( 80 ۔ عبس : 37 ) یعنی اس دن ہر شخص نفسا نفسی میں پڑا ہوا ہو گا اور فرمایا ، اے لوگو اپنے رب کا خوف کھاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ ارشاد ہے «وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 48 ) یعنی کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہو اور فرمایا ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی.(74-المدثر:48) دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست ۔ (26-الشعراء:101-100) یہ بھی ارشاد ہے فدیہ بھی نہ لیا جائے گا اور جو لوگ کفر پر مر جاتے ہیں وہ اگر زمین بھر کر سونا دیں اور ہمارے عذابوں سے چھوٹنا چاہیں تو یہ بھی نہیں ہو سکتا.(3-آل عمران:91) اور جگہ ہے کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور درد ناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے.(5-المائدۃ:36) اور جگہ ہے ۔ گو وہ زبردست فدیہ دیں پھر بھی قبول نہیں ۔ (6-الأنعام:70) دوسری جگہ ہے آج تم سے نہ بدلہ لیا جائے نہ ہی کافروں سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اسی کی آگ تمہاری وارث ہے ۔ (57-الحدید:15) مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے قرآن میں ارشاد ہے اس دن سے پہلے نیکیاں کر لو جس دن نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی (2-البقرۃ:254) اور شفاعت مزید فرمایا «یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خِلٰلٌ» ( 14 ۔ ابراہیم : 31 ) اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ۔ عدل کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے علی والی حدیث میں صرف کے معنی نفل اور دل کے معنی فریضہ مروی ہیں ۔(صحیح بخاری:1870) لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فدیہ ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:887:مرسل و منقطع) ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا ، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لیے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی اور جگہ ہے « وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ( 23 ۔ المؤمنون : 88 ) وہ پناہ دیتا ہے اور اس کی پکڑ سے نجات دینے والا کوئی نہیں ، ایک جگہ ہے آج کے دن نہ اللہ کا سا کوئی عذاب دے سکے نہ اس کی سی قید و بند ۔ ارشاد ہے آیت« مَا لَکُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» ( 37-الصافات : 25 ، 26 ) تم آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے سب آج گردنیں جھکائے تابع فرمان بنے کھڑے ہیں۔ اور آیت میں ہے « فَلَوْلَا نَــصَرَہُمُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قُرْبَانًا اٰلِہَۃً فَلَوْلَا نَصَرَہُمُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللہِ قُرْبَانًا آلِہَۃً ۖ بَلْ ضَلٰوا عَنْہُمْ ۚ وَذٰلِکَ إِفْکُہُمْ وَمَا کَانُوا یَفْتَرُونَ » ( 46 ۔ الاحقاف : 28 ) اللہ کے نزدیکی کے لیے وہ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے تھے آج وہ معبود اپنے عابدوں کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ بلکہ وہ تو غائب ہو گئے مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں ، شفاعتیں مٹ گئیں ، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جس کے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا ، ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے کہ«وَقِفُوہُمْ ۖ إِنَّہُم مَّسْئُولُونَ مَا لَکُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» ( 37-الصافات : 24 - 26 ) وقفہ لینے دو تاکہ ان سے ایک سوال کر لیا جائے گا کہ آج یہ ایک دوسرے کی مدد چھوڑ کر نفسا نفسی میں کیوں مشغول ہیں ؟ بلکہ ہمارے سامنے سر جھکائے اور تابع فرمان ہیں ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:35/1)