سورة المدثر - آیت 1

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے چادر اوڑھنے والے (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ابتدائے وحی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی یہی آیت «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا الْمُدَّثِّرُ» ۱؎ (74-المدثر:1) نازل ہوئی ہے ، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ سب سے پہلی وحی «‏‏‏‏اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ» ۱؎ (96-العلق:1) کی آیتیں ہیں جیسے اسی سورت کی تفسیر کے موقعہ پر آئے گا ۔ «ان شاء اللہ تعالیٰ» یحییٰ بن ابو کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ سب سے پہلے قرآن کریم کی کون سی آیتیں نازل ہوئیں ؟ تو فرمایا «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا الْمُدَّثِّرُ» ۱؎ (74-المدثر:1) میں نے کہا لوگ تو آیت «‏‏‏‏اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ» ۱؎ (96-العلق:1) بتاتے ہیں فرمایا ” میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا انہوں نے وہی جواب دیا جو میں نے تمہیں دیا اور میں نے بھی وہی کہا جو تم نے مجھے کہا اس کے جواب میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو تم سے وہی کہتا ہوں جو ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { میں حرا میں اللہ کی یاد سے جب فارغ ہوا اور اترا تو میں نے سنا کہ گویا مجھے کوئی آواز دے رہا ہے میں نے اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تو میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا تو آواز دینے والا نظر آیا ۔ میں خدیجہ کے پاس آیا اور کہا مجھے چادر اڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈالو انہوں نے ایسا ہی کیا اور آیت «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا الْمُدَّثِّرُ» ‏‏‏‏۱؎ (74-المدثر:1) کی آیتیں اتریں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4922) صحیح بخاری مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کی حدیث بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چلا جا رہا تھا کہ ناگہاں آسمان کی طرف سے مجھے آواز سنائی دی ۔ میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا کہ جو فرشتہ میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے میں مارے ڈر اور گھبراہٹ کے زمین کی طرف جھک گیا اور گھر آتے ہی کہا کہ مجھے کپڑوں سے ڈھانک دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے کپڑے اوڑھا دیئے اور سورۃ المدثر کی «‏‏‏‏وَالرٰجْزَ فَاہْجُرْ» ۱؎ (74-المدثر:5) تک کی آیتیں اتریں } ۔ ابوسلمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رٰجْزَ» سے مراد بت ہیں ۔ { پھر وحی برابر تابڑ توڑ گرما گرمی سے آنے لگی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4926) یہ لفظ بخاری کے ہیں اور یہی سیاق محفوظ ہے ۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سے پہلے بھی کوئی وحی آئی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ یہ وہی تھا جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا یعنی جبرائیل علیہ السلام جبکہ غار میں سورۃ اقراء کی آیتیں «‏‏‏‏عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ» ۱؎ (96-العلق:5) تک پڑھا گئے تھے ۔ پھر اس کے بعد وحی کچھ زمانہ تک نہ آئی پھر جو اس کی آمد شروع ہوئی اس میں سب سے پہلے وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیتیں تھیں اور اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے کہ دراصل سب سے پہلے وحی تو اقراء کی آیتیں ہیں پھر وحی کے رک جانے کے بعد کی سب سے پہلی وحی اس سورت کی آیتیں ہیں اس کی تائید مسند احمد وغیرہ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ہے کہ { وحی رک جانے کے بعد کی پہلی وحی اس کی ابتدائی آیتیں ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3238) طبرانی میں اس سورت کا شان نزول یہ مروی ہے کہ ولید بن مغیرہ نے قریشیوں کی دعوت کی جب سب کھا پی چکے تو کہنے لگا تم اس شخص کی بابت کیا کہتے ہو ؟ تو بعض نے کہا جادوگر ہے بعض نے کہا نہیں ہے ، بعض نے کہا کاہن ہے کسی نے کہا کاہن نہیں ہے ، بعض نے کہا شاعر ہے ، بعض نے کہا شاعر نہیں ہے ، بعض نے کہا اس کا یہ کلام یعنی قرآن منقول جادو ہے چنانچہ اس پر اجماع ہو گیا کہ اسے منقول جادو کہا جائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع پہنچی تو غمگین ہوئے اور سر پر کپڑا ڈال لیا اور کپڑا اوڑھ بھی لیا جس پر یہ آیتیں «وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ» ۱؎ (74-المدثر:7) تک اتریں ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:11250،قال الشیخ زبیرعلی زئی:ضعیف) دعوت دین کے لوازمات پھر فرمایا ہے کہ ’ کھڑے ہو جاؤ ، یعنی عزم اور قومی ارادے کے ساتھ کمربستہ اور تیار ہو جاؤ اور لوگوں کو ہماری ذات سے ، جہنم سے ، اور ان کے بداعمال کی سزا سے ڈراؤ ۔ ان کو آگاہ کر دو ، ان سے غفلت کو دور کر دو ‘ ۔ پہلی وحی سے نبوت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز کیا گیا اور اس وحی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول بنائے گئے اور اپنے رب ہی کی تعظیم کرو اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو یعنی معصیت ، بدعہدی ، وعدہ شکنی وغیرہ سے بچتے رہو ، جیسے کہ شاعر کے شعر میں ہے کہ «إَنِّی بِحَمْدِ اللہِ لَا ثَوْبَ فَاجِرٍ لَبِسْتُ وَلَا مِنْ غَدْرَۃٍ أَتَقَنَّعُ» بحمد للہ میں فسق و فجور کے لباس سے اور غدر کے رومال سے عاری ہوں ۔ عربی محاورے میں یہ برابر آتا ہے کہ کپڑے پاک صاف رکھو یعنی گناہ چھوڑ دو ، اعمال صالح کر لو ۔ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ ’ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو کاہن ہیں ، نہ جادوگر ہیں یہ لوگ کچھ ہی کہا کریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرواہ بھی نہ کریں ‘ ۔ عربی محاورے میں جو معصیت آلود ، بدعہد ہو اسے میلے اور گندے کپڑوں والا اور جو عصمت مآب ، پابند وعدہ ہو اسے پاک کپڑوں والا کہتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے «إِذَا الْمَرْءُ لَمْ یَدْنَسْ مِنَ اللٰؤْمِ عِرْضُہُ» *** «فَکُلٰ رِدَاءٍ یَرْتَدِیہِ جَمِیلُ» یعنی انسان جبکہ سیاہ کاریوں سے الگ ہے تو ہر کپڑے میں وہ حسین ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ غیر ضروری لباس نہ پہنو اپنے کپڑوں کو معصیت آلود نہ کرو ۔ کپڑے پاک صاف رکھو ، میلوں کو دھو ڈالا کرو ، مشرکوں کی طرح اپنا لباس ناپاک نہ رکھو ۔ دراصل یہ سب مطالب ٹھیک ہیں یہ بھی وہ بھی ۔ ساتھ ہی دل بھی پاک ہو دل پر بھی کپڑے کا اطلاق کلام عرب میں پایا جاتا ہے جیسے امرؤ القیس کے شعر میں ہے «أَفَاطِمَ مَہْلًا بَعْضَ ہَذَا التَّدَلٰلِ» *** «وَإِنْ کُنْتِ قَدْ أَزْمَعْتِ ہَجْرِی فَأَجْمِلِی» *** «وَإِنْ تَکُ قَدْ سَاءَتْکِ مِنِّی خَلِیقَۃٌ» *** «فَسُلِّی ثِیَابِی مِنْ ثِیَابِکِ تَنْسُلِ» اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ ” اپنے دل کو اور اپنی نیت کو صاف رکھو “ ، محمد بن کعب قرظی اور حسن رحمہ اللہ علیہما سے یہ بھی مروی ہے کہ اپنے اخلاق کو اچھا رکھو ۔ گندگی کو چھوڑ دو یعنی بتوں کو اور اللہ کی نافرمانی چھوڑ دو ۔ جیسے اور جگہ فرمان ہے «‏‏‏‏یٰٓاَیٰہَا النَّبِیٰ اتَّقِ اللّٰہَ وَلَا تُطِـعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:1) ’ اے نبی ! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کی نہ مانو ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام سے فرمایا تھا «قَالَ مُوسَیٰ لِأَخِیہِ ہَارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:142) ’ اے ہارون میرے بعد میری قوم میں تم میری جانشینی کرو اصلاح کے درپے رہو اور مفسدوں کی راہ اختیار نہ کرو ‘ ۔ نیکی کر دریا میں ڈال پھر فرماتا ہے ’ عطیہ دے کر زیادتی کے خواہاں نہ رہو ‘ ۔ ابن مسعود کی قرأت میں «وَلَا تَمْنُنْ أَنْ تَسْتَکْثِرَ» ہے ۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ ’ اپنے نیک اعمال کا احسان اللہ پر رکھتے ہوئے حد سے زیادہ تنگ نہ کرو ‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ طلب خیر میں غفلت نہ برتو ‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ اپنی نبوت کا بار احسان لوگوں پر رکھ کر اس کے عوض دنیا طلبی نہ کرو ‘ ، یہ چار قول ہوئے ، لیکن اول اولیٰ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے ’ ان کی ایذاء پر جو راہ اللہ میں تجھے پہنچے تو رب کی رضا مندی کی خاطر صبر و ضبط کر ، اللہ تعالیٰ نے جو تجھے منصب دیا ہے اس پر لگا رہ اور جما رہ ‘ ۔ «نَّاقُورِ» سے مراد صور ہے ، مسند احمد ابن ابی حاتم وغیرہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں کیسے راحت سے رہوں ؟ حالانکہ صور والے فرشتے نے اپنے منہ میں صور لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے ہوئے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو اور وہ صور پھونک دے “ ، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا :یا رسول اللہ ! پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے ؟ فرمایا : ” کہو «حَسْبنَا اللَّہ وَنِعْمَ الْوَکِیل عَلَی اللَّہ تَوَکَّلْنَا» “ } ۱؎ (مسند احمد:1/326:صحیح) پس صور کے پھونکے جانے کا ذکر کر کے یہ فرما کر جب صور پھونکا جائے گا پھر فرماتا ہے کہ ’ وہ دن اور وہ وقت کافروں پر بڑا سخت ہو گا جو کسی طرح آسان نہ ہو گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ خود کفار کا قول مروی ہے کہ «یَقُولُ الْکَافِرُونَ ہٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ» ۱؎ (54-القمر:8) ’ یہ آج کا دن تو بے حد گراں اور سخت مشکل کا دن ہے ‘ ۔ زرارہ بن اوفی رحمتہ اللہ علیہ جو بصرہ کے قاضی تھے وہ ایک مرتبہ اپنے مقتدیوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے اسی سورت کی تلاوت تھی جب اس آیت پر پہنچے تو بےساختہ زور کی ایک چیخ منہ سے نکل گئی اور گر پڑے لوگوں نے دیکھا روح پرواز ہو چکی تھی ، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے ۔