يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت (66) کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور رسول کی اطاعت کرو، اور تم میں سے اقتدار والوں کی، پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارا اختلاف ہوجائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو (67) اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے اعتبار سے یہی اچھا ہے
مشروط اطاعت امیر صحیح بخاری شریف میں بروایت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹے سے لشکر میں عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:4584) بخاری و مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری رضی اللہ عنہ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہو گئے اور فرمانے لگے کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری فرمانبرداری کا حکم نہیں دیا ؟ سب نے کہا ہاں بیشک دیا ہے ، فرمانے لگے اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو ۔ ایک نوجوان نے کہا لوگو سنو آگ سے بچنے کے لیے ہی تو ہم نے دامن رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پناہ لی ہے تم جلدی نہ کرو جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات نہ ہو جائے پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بے جھجھک اس آگ میں کود پڑھنا چنانچہ یہ لوگ واپس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے فرمایا : ” اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے رہتے ۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے “ }۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4340) ابوداؤد میں ہے کہ { مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے جی چاہے یا طبیعت رو کے لیکن اس وقت تک کہ [ اللہ تعالیٰ اور رسول کی ] نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے ، جب نافرمانی کا حکم ملے تو نہ سنے نہ مانے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2955) بخاری و مسلم میں ہے { سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی کہ کام کے اہل سے اس کام کو نہ چھینیں ۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی واضح الٰہی دلیل بھی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7056) بخاری شریف میں ہے { سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے کہ اس کا سر کشمکش ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:693) مسلم شریف میں ہے { سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سننے کی وصیت کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1837) مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : ” چاہے تم پر غلام عامل بنایا جائے جو تمہیں کتاب اللہ کے مطابق تمہارا ساتھ چاہے تو تم اس کی سنو اور مانو “ ۔ ایک روایت میں { غلام حبشی اعضاء کٹا کے الفاظ ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1838) ابن جریر میں ہے کہ { میرے بعد والے تم سے ملیں گے نیکوں سے نیک اور بدوں سے بد تم ہر ایک اس امر میں جو مطابق ہو ان کی سنو اور مانو کہ میرے بعد نیک سے نیک اور بد سے بد تم کو ملیں گے تم پر ایک میں نے جو حق پر ہو اس کا سننا اور ماننا تم سے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہو اگر وہ نیکی کریں گے ۔ تو ان کے لیے تفع ہے اور تمہارے لیے بھی اور اگر وہ بدی کریں گے تو تمہارے لیے اچھائی ہے اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9881:ضعیف) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بنو اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے تھے ایک کے بعد ایک اور میرے بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء بکثرت ہوں گے “ ، لوگوں نے پوچھا : پھر اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ فرمایا : ” پہلے کی بیعت پوری کرو پھر اس کے بعد آنے والے کی ان کے حق انہیں دے دو اللہ تعالیٰ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کرنے والا ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3455) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جو شخص اپنے امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے اسے صبر کرنا چاہیئے جو شخص جماعت کے بالشت بھر جدا ہو گیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7143) ارشاد ہے { جو شخص اطاعت سے ہاتھ کھینچ لے وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے گا اور جو اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1851) عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما ہیں اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے میں بھی اس مجلس میں ایک طرف ہوکر بیٹھ گیا اس وقت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی فرمایا ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک منزل میں اترے کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے لگا کوئی اپنے نیز سنبھالنے لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہو گیا ، اچانک ہم نے سنا کہ منادی والا ندا دے رہا ہے۔ ہم ہمہ تن گوش ہو گئے ۔ اور سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں : ” ہر نبی پر اللہ کی طرف سے فرض ہوتا ہے کہ اپنی امت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے سکھادے اور تمام برائیوں سے جو اس کی نگاہ میں ہیں انہیں آگاہ کر دے ۔ سنو میری امت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے آخر زمانے میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے ایسے امور نازل ہوں گے جنہیں مسلمان ناپسند کریں گے اور ایک پر ایک فتنہ برپا ہو گا ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن سمجھ لے گا اسی میں میری ہلاکت ہے پھر وہ ہٹے گا ۔ تو دوسرا اس سے بھی بڑا آئے گا جس میں اسے اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہو گا بس یونہی لگاتار فتنے اور زبردست آزمائشیں اور کامل تکلیفیں آتی رہیں گے پس جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کا مستحق ہو اسے چاہیئے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ سنو جس نے امام سے بیعت کر لی اس نے اپنا ہاتھ اس کے قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے دے دیں ۔ اور اپنے دل کا پھل دے دیا اب اسے چاہیئے کہ اس کی اطاعت کرے اگر کوئی دوسرا اس سے خلافت چھیننا چاہے تو اس کی گردن اڑا دو “ ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟ تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو کانوں سے سنا اور میں نے اسے اپنے اس دل میں محفوظ رکھا ہے ۔ مگر آپ کے چچا زاد بھائی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہمیں اپنے مال باطل سے کھانے اور آپس میں ایک دوسرے سے جنگ کرنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کاموں سے ممانعت فرمائی ہے ، ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا» ۱؎ (4-النساء:29) اسے سن کر عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے نہ مانو ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1844) اس بارے میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ اسی آیت کی ممانعت کی تفسیر میں سدی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا جس کا امیر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنایا اس لشکر میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بھی تھے یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھا چلا ، رات کے وقت اس کی بستی کے پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے جاسوسوں سے پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا انہوں نے اس کا سب اسباب جلا دیا یہ شخص رات کے اندھیرے میں سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں آیا اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اے ابوالیقظان میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور گواہی دے طکا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے نفع دے گا ؟ اگر نفع نہ دے تو میں بھی بھاگ جاؤں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں نفع دے گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے رہو ۔ صبح کے وقت جب سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے لشکر کشی کی تو سوائے اس شخص کے وہاں کسی کو نہ پایا اسے اس کے مال سمیت گرفتار کر لیا گیا جب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا اسے چھوڑ دیجئیے یہ اسلام لا چکا ہے اور میری پناہ میں ہے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے سکو ؟ اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہو گئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے پناہ نہ دینا پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے لگی اس پر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے حضور سے کہا اس ناک کٹے غلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کہتے ؟ دیکھئے تو یہ مجھے برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” خالد ، عمار کو برا نہ کہو ، عمار کو گالیاں دینے والے کو اللہ گالیاں دے گا ، عمار سے دشمنی کرنے والے سے اللہ دشمنی رکھے گا ، عمار پر جو لعنت بھیجے گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی “ ۔ اب تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو لینے کے دینے پڑھ گئے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ غصہ میں چل دیئے ، آپ دوڑ کر ان کے پاس گئے ، دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ راضی نہ ہو گئے ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9866:صحیح) [ امر امارت و خلافت کے متعلق شرائط وغیرہ کا بیان «وَإِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً » ۱؎ (2-البقرۃ:30) کی تفسیر میں گزر چکا ہے وہاں ملاحظہ ہو ۔ مترجم ] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ رویات مروی ہے [ ابن جریر اور ابن مردویہ ] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں اولیٰ الامر سے مراد سمجھ بوجھ اور دین والے ہیں یعنی علماء ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے آگے حقیقی علم اللہ کو ہے کہ یہ لفظ عام ہیں امراء علماء دونوں اس سے مراد ہیں جیسے کہ پہلے گزرا قرآن فرماتا ہے«لَوْلَا یَنْہَاہُمُ الرَّبَّانِیٰونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِہِمُ الْإِثْمَ وَأَکْلِہِمُ السٰحْتَ» ۱؎ (5-المائدۃ:63) یعنی ’ ان کے علماء نے انہیں جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سے کیوں نہ روکا ؟ ‘ اور جگہ ہے «فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ » ۱؎ (16-النحل:43) ’ حدیث کے جاننے والوں سے پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں علم نہ ہو ۔‘ صحیح حدیث میں ہے { «مَنْ أَطَاعَنِی فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِی فَقَدْ عَصَی اللہَ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِیرِی فَقَدْ أَطَاعَنِی وَمَنْ عَصَی أَمِیرِی فَقَدْ عَصَانِی» میری اطاعت کرنے والا اللہ کی اطاعت کرنے والا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری فرمانبرداری کی اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی } ۱؎ (صحیح بخاری:7137) پس یہ ہیں احکام علماء امراء کی اطاعت کے اس آیت میں ارشاد ہوتا کے کہ اللہ کی اطاعت کرو یعنی اس کی کتاب کی اتباع کرو اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اے اللہ کے رسول ! یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو ، اللہ کے فرمان کے خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیئے ایسے وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے جیسے کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ { اطاعت صرف معروف میں ہے یعنی فرمان اللہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دائرے میں } ۔ مسند احمد میں ہے اس سے بھی زیادہ صاف حدیث ہے جس میں ہے { کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف جائز نہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:426/4:،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آگے چل کر فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے میں جھگڑ پڑے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے کہ مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:504/8) پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے متعلق ہو خواہ فروغ دین سے متعلق اس کے تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے کہ کتاب و سنت کو حاکم مان لیا جائے جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے ، جیسے اور آیت قرآنی میں ہے «وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِن شَیْءٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللہِ » ۱؎ (42-الشوری:10) یعنی ’ اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے ‘ پس کتاب و سنت جو حکم دے اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے وہی حق ہے باقی سب باطل ہے ، قرآن فرماتا ہے کہ حق کے بعد جو ہے ضلالت و گمراہی ہے ، اسی لیے یہاں بھی اس حکم کے ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو ، یعنی اگر تم ایمان کے دعوے میں سچے ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو ، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو ۔ پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے نہ لے جائے وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے ، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے اور یہی اچھے بدلے دلانے والا کام ہے ، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے ۔