وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ آمَنُوا امْرَأَتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور اللہ نے مومنوں کے لئے مثال دی ہے فرعون کی بیوی کی، جب اس نے کہا، میرے رب ! تو میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے، اور مجھے فرعون اور اس کی بد اعمالیوں سے نجات دے دے، اور مجھے ظالم قوت سے نجات دے دے
سعادت مند آسیہ (فرعون کی بیوی) یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے مثال بیان فرما کر ارشاد فرماتا ہے کہ ’ اگر یہ اپنی ضرورت پر کافروں سے خلط ملط ہوں تو انہیں کچھ نقصان نہ ہو گا ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «لَّا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللہِ فِی شَیْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاۃً» ۱؎ (3-آل عمران:28) الخ ’ ایمانداروں کو چاہیئے کہ مسلمانوں کے سوا اوروں سے دوستیاں نہ کریں ، جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی بھلائی میں نہیں ، ہاں اگر بطور بچاؤ اور دفع الوقتی کے ہو تو اور بات ہے ‘ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” روئے زمین کے تمام تر لوگوں میں سب سے زیادہ سرکش فرعون تھا لیکن اس کے کفر نے بھی اس کی بیوی کو کچھ نقصان نہ پہنچایا اس لیے کہ وہ اپنے زبردست ایمان پر پوری طرح قائم تھیں اور رہیں ۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل حاکم ہے وہ ایک گناہ پر دوسرے کو نہیں پکڑتا “ ۔ سلمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” فرعون اس نیک بخت بیوی کو طرح طرح سے ستاتا تھا ، سخت گرمیوں میں انہیں دھوپ میں کھڑا کر دیتا لیکن پروردگار اپنے فرشتوں کے پروں کا سایہ ان پر کر دیتا اور انہیں گرمی کی تکلیف سے بچا لیتا بلکہ ان کے جنتی مکان کو دکھا دیتا جس سے ان کی روح کی تازگی اور ایمان کی زیادتی ہو جاتی ، فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کی بابت یہ دریافت کرتی رہتی تھیں کہ کون غالب رہا تو ہر وقت یہی سنتیں کہ موسیٰ علیہ السلام غالب رہے ، بس یہی ان کے ایمان کا باعث بنا اور یہ پکار اٹھیں کہ میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے رب پر ایمان لائی ۔ فرعون کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ جو بڑی سے بڑی پتھر کی چٹان تمہیں ملے اسے اٹھا لاؤ اسے چت لٹاؤ اور اسے کہو کہ اپنے اس عقیدے سے باز آئے اگر باز آ جائے تو میری بیوی ہے عزت و حرمت کے ساتھ واپس لاؤ اور اگر نہ مانے تو وہ چٹان اس پر گرا دو اور اس کا قیمہ قیمہ کر ڈالو ، جب یہ لوگ پتھر لائے انہیں لے گئے لٹایا اور پتھر ان پر گرانے کے لیے اٹھایا تو انہوں نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی پروردگار نے حجاب ہٹا دیئے اور جنت کو اور وہاں جو مکان ان کے لیے بنایا گیا تھا اسے انہوں نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا اور اسی میں ان کی روح پرواز کر گئی جس وقت پتھر پھینکا گیا اس وقت ان میں روح تھی ہی نہیں ، اپنی شہادت کے وقت دعا مانگتی ہیں کہ ” اللہ ! جنت میں اپنے قریب کی جگہ مجھے عنایت فرما “ ، اس دعا کی اس باریکی پر بھی نگاہ ڈالئے کہ پہلے اللہ کا پڑوس مانگا جا رہا ہے پھر گھر کی درخواست کی جا رہی ہے “ ۔ اس واقعہ کے بیان میں مرفوع حدیث بھی وارد ہوئی ہے ۔ (طبرانی:4379:ضعیف) پھر دعا کرتی ہیں کہ ” مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے میں اس کی کفریہ حرکتوں سے بیزار ہوں ، مجھے اس ظالم قوم سے عافیت میں رکھ “ ، ان بیوی صاحبہ کا نام آسیہ رضی اللہ عنہا بنت مزاحم تھا ۔ ان کے ایمان لانے کا واقعہ ابوالعالیہ رحمہ اللہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ” فرعون کے داروغہ کی عورت کا ایمان ان کے ایمان کا باعث بنا ، وہ ایک روز فرعون کی لڑکی کا سر گوندھ رہی تھی ، اچانک کنگھی ہاتھ سے گر گئی اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ کفار برباد ہوں اس پر فرعون کی لڑکی نے پوچھا کہ کیا میرے باپ کے سوا تو کسی اور کو اپنا رب مانتی ہے ؟ اس نے کہا : میرا اور تیرے باپ کا اور ہر چیز کا رب اللہ تعالیٰ ہے ، اس نے غصہ میں آ کر انہیں خوب مارا پیٹا اور اپنے باپ کو اس کی خبر دی ، فرعون نے انہیں بلا کر خود پوچھا کہ کیا تم میرے سوا کسی اور کی عبادت کرتی ہو ؟ جواب دیا کہ ہاں میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا رب اللہ ہے ، میں اسی کی عبادت کرتی ہوں ، فرعون نے حکم دیا اور انہیں چت لٹا کر ان کے ہاتھ پیروں پر میخیں گڑوا دیں اور سانپ چھوڑ دیئے جو انہیں کاٹتے رہیں ، پھر ایک دن آیا اور کہا : اب تیرے خیالات درست ہوئے ؟ وہاں سے جواب ملا کہ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا رب اللہ ہی ہے ، فرعون نے کہا : اب تیرے سامنے میں تیرے لڑکے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا ورنہ اب بھی میرا کہا مان لے اور اس دین سے باز آ جا ، انہوں نے جواب دیا کہ جو کچھ تو کر سکتا ہو کر ڈال ، اس ظالم نے ان کے لڑکے کو منگوایا اور ان کے سامنے اسے مار ڈالا ، جب اس بچہ کی روح نکلی تو اس نے کہا : اے ماں ! خوش ہو جا ، تیرے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے ثواب تیار کر رکھے ہیں اور فلاں فلاں نعمتیں تجھے ملیں گی ۔ انہوں نے اس روح فرسا سانحہ کو بچشم خود دیکھا لیکن صبر کیا اور راضی بہ قضاء ہو کر بیٹھی رہیں ، فرعون نے انہیں پھر اسی طرح باندھ کر ڈلوا دیا اور سانپ چھوڑ دیئے پھر ایک دن آیا اور اپنی بات دہرائی بیوی صاحبہ نے پھر نہایت صبر و استقلال سے وہی جواب دیا اس نے پھر وہی دھمکی دی اور ان کے دوسرے بچے کو بھی ان کے سامنے ہی قتل کرا دیا ۔ اس کی روح نے بھی اسی طرح اپنی والدہ کو خوشخبری دی اور صبر کی تلقین کی ، فرعون کی بیوی صاحبہ نے بڑے بچہ کی روح کی خوشخبری سنی تھی ، اب اس چھوٹے بچے کی روح کی بھی خوشخبری سنی اور ایمان لے آئیں ، ادھر ان بیوی صاحبہ کی روح اللہ تعالیٰ نے قبض کر لی اور ان کی منزل و مرتبہ جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تھا وہ حجاب ہٹا کر فرعون کی بیوی کو دکھا دیا گیا ۔ یہ اپنے ایمان و یقین میں بہت بڑھ گئیں یہاں تک کہ فرعون کو بھی ان کے ایمان کی خبر ہو گئی ، اس نے ایک روز اپنے درباریوں سے کہا تمہیں کچھ میری بیوی کی خبر ہے ؟ تم اسے کیا جانتے ہو ؟ سب نے بڑی تعریف کی اور ان کی بھلائیاں بیان کیں فرعون نے کہا : تمہیں نہیں معلوم وہ بھی میرے سوا دوسرے کو اللہ مانتی ہے ، پھر مشورہ ہوا کہ انہیں قتل کر دیا جائے ، چنانچہ میخیں گاڑی گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈال دیا گیا ، اس وقت آسیہ علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی کہ ” پروردگار میرے لیے اپنے پاس جنت میں مکان بنا “ ، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حجاب ہٹا کر انہیں ان کا جنتی درجہ دکھا دیا جس پر یہ ہنسنے لگیں ، ٹھیک اسی وقت فرعون آ گیا اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر کہنے لگا ، لوگو ! تمہیں تعجب نہیں معلوم ہوتا کہ اتنی سخت سزا میں یہ مبتلا ہے اور پھر ہنس رہی ہے یقیناً اس کا دماغ ٹھکانے نہیں ، الغرض انہی عذابوں میں یہ بھی شہید ہوئیں “ «رضی اللہ عنہا» ۔