اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا
وہ اللہ ہے جس نے سات آسمان پیدا (٨) کئے ہیں، اور انہیں کی مانند زمین۔ ان (آسمانوں اور زمینوں) کے درمیان اللہ کا حکم اتر تا رہتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ بے شک اللہ اپنے علم کے ذریعہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے
حیرت، افزا شان ذوالجلال اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور اپنی عظیم الشان سلطنت کا ذکر فرماتا ہے تاکہ مخلوق اس کی عظمت و عزت کا خیال کر کے اس کے فرمان کو قدر کی نگاہ سے دیکھے اور اس پر عامل بن کر اسے خوش کرے ، تو فرمایا کہ ’ ساتوں آسمانوں کا خلاق اللہ تعالیٰ ہے ‘ ، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا «أَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا» ۱؎ (71-نوح:15) ’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ پاک نے ساتوں آسمانوں کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے ؟ ‘ اور جگہ ارشاد ہے «تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِیہِنَّ» ۱؎ (17-الاسراء:44) یعنی ’ ساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو کچھ ہے سب اس اللہ کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اسی کے مثال زمینیں ہیں ‘ ۔ جیسے کہ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں ہے { جو شخص ظلم کر کے کسی کی ایک بالشت بھر زمین لے لے گا اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3196) صحیح بخاری میں ہے { اسے ساتویں زمین تک دھنسایا جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3196) میں نے اس کی تمام سندیں اور کل الفاظ ابتداء اور انتہا میں زمین کی پیدائش کے ذکر میں بیان کر دیئے ہیں ۔ «فَالْحَمْدُ لِلہِ» جن بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد ہفت اقلیم ہے انہوں نے بے فائدہ دوڑ بھاگ کی ہے اور اختلاف بے جا میں پھنس گئے ہیں اور بلا دلیل قرآن حدیث کا صریح خلاف کیا ہے ۔ سورۃ الحدید میں آیت «ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ» ۱؎ (57- الحدید:3) ، کی تفسیر میں ساتوں زمینوں کا اور ان کے درمیان کی دوری کا اور ان کی موٹائی کا جو پانچ سو سال کی ہے پورا بیان ہو چکا ہے ، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ ایک اور حدیث میں بھی ہے { ساتوں آسمان اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے اور ساتوں زمینیں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان ہے کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی لمبے چوڑے بہت بڑے چٹیل میدان میں ایک چھلا پڑا ہو } ۔ ۱؎ (البدایۃ و والنہایۃ:14/1) ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ” اگر میں اس کی تفسیر تمہارے سامنے بیان کروں تو اسے نہ مانو گے اور نہ ماننا جھوٹا جاننا ہے “ ۔ اور روایت میں ہے کہ کسی شخص نے اس آیت کا مطلب پوچھا تھا اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ” میں کیسے باور کر لوں کہ جو میں تجھے بتاؤں گا تو اس کا انکار کرے گا ؟ “ اور روایت میں مروی ہے کہ ہر زمین میں مثل ابراہیم علیہ السلام کے اور اس زمین کی مخلوق کے ہے اور ابن مثنی والی اس روایت میں آیا ہے ہر آسمان میں مثل ابراہیم علیہ السلام کے ہے ۔ بیہقی کی کتاب «الْاَسْمَاءُ والصَّفَات» میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ساتوں زمینوں میں سے ہر ایک میں نبی ہے مثل تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آدم ہیں مثل آدم علیہ السلام کے اور نوح ہیں مثل نوح علیہ السلام کے اور ابراہیم ہیں مثل ابراہیم علیہ السلام کے اور عیسیٰ ہیں مثل عیسیٰ علیہ السلام کے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:145/12) پھر امام بیہقی نے ایک اور روایت بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی وارد کی ہے اور فرمایا ہے اس کی اسناد صحیح ہے لیکن یہ بالکل شاذ ہے ابوالضحیٰ جو اس کے ایک راوی ہیں میرے علم میں تو ان کی متابعت کوئی نہیں کرتا ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مخلوق خدا میں غور و خوض ایک مرسل اور بہت ہی منکر روایت ابن ابی الدنیا لائے ہیں جس میں مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مجمع میں تشریف لائے دیکھا کہ سب کسی غور و فکر میں چپ چاپ ہیں ، پوچھا : ” کیا بات ہے ؟ “ جواب ملا ، اللہ کی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ فرمایا : ” ٹھیک ہے مخلوقات پر نظریں دوڑاؤ لیکن کہیں اللہ کی بابت غور و خوض میں نہ پڑ جانا ، سنو اس مغرب کی طرف ایک سفید زمین ہے اس کی سفیدی اس کا نور ہے “ یا فرمایا ” اس کا نور اس کی سفیدی ہے ، سورج کا راستہ چالیس دن کا ہے ، وہاں اللہ کی ایک مخلوق ہے جس نے ایک آنکھ جھکپنے کے برابر بھی کبھی اس کی نافرمانی نہیں کی “ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کہا : پھر شیطان ان سے کہاں ہیں ؟ فرمایا : ” انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ شیطان پیدا بھی کیا گیا ہے یا نہیں ؟ “ پوچھا : کیا وہ بھی انسان ہیں ؟ فرمایا : ” انہیں آدم علیہ السلام کی پیدائش کا بھی علم نہیں “ } (کتابہ التفکر والاعتبار:منکر) «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ الطلاق کی تفسیر بھی پوری ہوئی ۔