وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
اور ہم نے ہر شخص کے ورثہ (41) بنائے ہیں۔ اس (مال کی تقسیم) کے لیے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مریں اور جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے انہیں ان کا حصہ دو، بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے
مسئلہ وارثت میں موالی؟ وارث اور عصبہ کی وضاحت و اصلاحات بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہے ۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:270/8) بعض کہتے ہیں «عصبہ» مراد ہیں ؟ چچا کی اولاد کو بھی «موالی» کہا جاتا ہے جیسے فضل بن عباس رحمہ اللہ کے شعر میں ہے ۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے لوگو ! تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے عصبہ مقرر کر دئیے ہیں جو اس مال کے وارث ہوں گے جسے ان کے ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں اور تمہارے منہ بولے بھائی ہیں تم جن کی قسمیں کھا کر بھائی بنے ہو اور وہ تمہارے بھائی بنے ہیں انہیں ان کی میراث کا حصہ دو جیسے کہ قسموں کے وقت تم میں عہد و پیمان ہو چکا تھا ، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور حکم ہوا کہ جن سے عہد و پیمان ہوئے وہ نبھائے جائیں اور بھولے نہ جائیں لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ موالی سے مراد وارث ہیں اور بعد کے جملہ سے مراد یہ ہے کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف لائے تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے انصاری بھائی بند کا وارث ہوتا اس کے ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے پس آیت نے اس طریقے کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان کی مدد کرو انہیں فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں نہیں ملے گی ہاں وصیت کر جاؤ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4580) قبل از اسلام یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہو جاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح قبائل عرب عہد و پیمان کر لیتے تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جاہلیت کی قسمیں اور عہد و پیمان کو اسلام اور مضبوظ کرتا ہے لیکن اب اسلام میں قسمیں اور اس قسم کے عہد نہیں اسے اس آیت نے منسوخ قرار دے دیا اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب اللہ کے حکم سے زیادہ ترجیح کے مستحق ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے بارے میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ دئیے جائیں اور اس قسم کے توڑنے کو کہا جائے جو دارالندوہ میں ہوئی تھی تو میں اسے بھی پسند نہیں کرتا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2530) ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں اپنے بچپنے میں اپنے ماموؤں کے ساتھ حلف طیبین میں شامل تھا میں اس قسم کو سرخ اونٹوں کے بدلے بھی توڑنا پسند نہیں کرتا “ پس یاد رہے کہ قریش و انصار میں جو تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا وہ صرف الفت و یگانگت پیدا کرنے کے لیے تھا ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9297:صحیح بالشواھد) لوگوں کے سوال کے جواب میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مروی ہے کہ جاہلیت کے حلف نبھاؤ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9293:صحیح بالشواھد) لیکن فتح مکہ والے دن بھی آپ نے کھڑے ہو کر اپنے خطبہ میں اسی بات کا اعلان فرمایا ۔ داؤد بن حصین رحمہ اللہ کہتے ہیں میں سیدہ ام سعد بنت ربیع رضی اللہ عنہا سے قرآن پڑھتا تھا میرے ساتھ ان کے پوتے موسیٰ بن سعد بھی پڑھتے تھے جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی گود میں یتیمی کے ایام گزار رہے تھے میں نے جب اس آیت میں «عاقدت» پڑھا تو مجھے میری استانی جی نے روکا اور فرمایا «عقدت» پڑھو اور یاد رکھو یہ آیت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، جب عبدالرحمٰن اسلام کے منکر تھے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ انہیں وارث نہ کریں گے بالآ خر جب یہ مسلمانوں کی بے پناہ تلواروں سے اسلام کی طرف آمادہ ہوئے اور مسلمان ہو گئے تو سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ انہیں ان کے ورثے کے حصے سے محروم نہ فرمائیں ، (ضعیف: اس کی سند میں ابن اسحق مدلس راوی ہے اور اس نے عن سے روایت بیان کی ہے) لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے الغرض اس آیت اور ان احادیث سے ان کا قول رد ہوتا ہے جو قسم اور وعدوں کی بنا پر آج بھی ورثہ پہنچنے کے قائل ہیں جیسے کہ امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی اس قسم کی ایک روایت ہے ۔ جسے جمہور اور امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہم سے صحیح قرار دیا ہے اور مشہور قول کی بنا پر امام احمد بھی اسے صحیح مانتے ہیں ۔ پس آیت میں ارشاد ہے کہ ہر شخص کے وارث اس کے قرابتی لوگ ہیں اور کوئی نہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حصہ دار وارثوں کو ان کے حصوں کے مطابق دے کر پھر جو بچ رہے تو عصبہ کو ملے (صحیح بخاری:6732:6725) اور وارث وہ ہیں جن کا ذکر فرائض کی دو آیتوں میں ہے اور جن سے تم سے مضبوط عہد و پیمان اور قسموں کا تبادلہ کیا ہے یعنی آس آیت کے نازل ہونے سے پہلے سے انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث کا اور اور اس کے بعد جو حلف ہو وہ کالعدم ہو گا اور یہ بھی کہا گیا ہے خواہ اس سے پہلے کے وعدے اور قسمیں ہوں خواہ اس آیت کے اترنے کے بعد ہوں سب کا یہی حکم ہے کہ ایسے حلف برداروں کو میراث نہ ملے ۔ اور بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کا حصہ نصرت امداد خیر خواہی اور وصیت ہے میراث نہیں آپ فرماتے ہیں لوگ عہدو پیمان کر لیا کرتے تھے کہ ان میں سے جو پہلے مرے گا بعد والا اس کا وارث بنے گا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے «وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَیٰ بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَیٰ أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا» ۱؎ (33-الأحزاب:6) نازل فرما کر حکم دیا کہ ذی رحم محرم ایک سے اولیٰ ہے البتہ اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرو یعنی اگر ان سے مال کا تیسرا حصہ دینے کی وصیت کر جاؤ تو جائز ہے یہی معروف و مشہور امر ۔ اور بہت سے سلف سے بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور ناسخ آیت «وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَیٰ بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَیٰ أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا» ۱؎ (33-الأحزاب:6) والی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہیں ان کا حصہ دو یعنی میراث ۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک صاحب کو اپنا مولیٰ بنایا تھا تو انہیں وارث بنایا۔ ابن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جواپنے بیٹوں کے سوا اوروں کو اپنا بیٹا بناتے تھے اور انہیں اپنی جائیداد کا جائز وارث قرار دیتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ وصیت میں سے دینے کو فرمایا اور میراث کو موالی یعنی ذی رحم محرم رشتہ داروں کی اور عصبہ کی طرف لوٹا دیا اور اس سے منع فرمایا اور اسے نا پسند فرمایا کہ صرف زبانی دعووں اور بنائے ہوئے بیٹوں کو ورثہ دیا جائے ہاں ان کے لیے وصیت میں سے دینے کو فرمایا ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ انہیں حصہ دو یعنی نصرت نصیحت اور معونت کا یہ نہیں کہ انہیں ان کے ورثہ کا حصہ دو تو یہ معنی کرنے سے پھر آیت کو منسوخ بتلانے کی وجہ باقی نہیں رہتی نہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ حکم پہلے تھا اب نہیں رہا ۔ بلکہ آیت کی دلالت صرف اسی امر پر ہے کہ جو عہد و پیمان آپس میں امداد و اعانت کے خیر خواہی اور بھلائی کے ہوتے تھے انہیں وفا کرو پس یہ آیت محکم اور غیر منسوخ ہے لیکن امام صاحب کے قول میں ذرا اشکال سے اس لیے کہ اس میں تو شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان صرف نصرت و امداد کے ہی ہوتے تھے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ بعض عہد و پیمان ورثے کے بھی ہوتے تھے جیسے کہ بہت سے سلف صالحین سے مروی ہے ۔ اور جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر بھی منقول ہے ۔ جس میں انہوں نے صاف فرمایا ہے کہ مہاجر انصار کا وارث ہوتا تھا اس کے قرابتی لوگ وارث نہیں ہوتے تھے نہ ذی رحم رشتہ دار وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ منسوخ ہو گیا پھر امام صاحب کیسے فرما سکتے ہیں کہ یہ آیت محکم اور غیر محکم منسوخ ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»