وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر جو برتری دی ہے اس کی تمنا (40) نہ کرو، مردوں کو ان کی کمائی کا حصہ ملتا ہے، اور عورتوں کو ان کی کمائی کا حصہ ملتا ہے، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے
جائز رشک اور جواب باصواب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں اس ثواب سے محروم ہیں ، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے آدھا ملتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3022،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں ہے کہ اس کے بعد پھر «أَنِّی لَا أُضِیعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَیٰ بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ» ۱؎ (3-آل عمران:195) اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:9238) اور یہ بھی روایت میں ہے کہ عورتوں نے یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتے تو جہاد میں جاتے اور روایت میں ہے کہ ایک عورت نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئیے مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملتا ہے دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے سمجھی جاتی ہے پھر عمل اس طرح ہے ایک نیکی آدھی نیکی رہ جاتی ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5223/3) سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مردوں نے کہا تھا کہ جب دوہرے حصے کے مالک ہم ہیں تو دوہرا اجر بھی کیوں نہ ملے ؟ اور عورتوں نے درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں ملتا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے رہو ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مطلب بیان کیا گیا ہے کہ انسان یہ آرزو نہ کرے کہ کاش کہ فلاں کا مال اور اولاد میرا ہوتا ؟ اس پر اس حدیث سے کوئی اشکال ثابت نہیں ہو سکتا جس میں ہے کہ حسد کے قابل صرف دو ہیں ایک مالدار جو راہ اللہ اپنا مال لٹاتا ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:73) اور دوسرا کہتا ہے کاش کہ میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتا رہتا پس یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجر میں برابر ہیں اس لیے کہ یہ ممنوع نہیں یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں کسی نیک کام کو حاصل کرنے کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے اس کے برعکس کسی کی چیز اپنے قبضے میں لینے کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے کی حرض جائز رکھی ہے اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے ۔ پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ملے گا خیر کے بدلے خیر اور شر کے بدلے شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق ورثہ دیا جاتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ہم سے ہمارا فضل مانگتے رہا کرو آپس میں ایک دوسرے کی فضیلت کی تمنا بےسود امر ہے ہاں مجھ سے میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” لوگو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو اللہ سے مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے ، یاد رکھو سب سے اعلیٰ عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3571،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور روایت میں ہے ایسی امید رکھنے والے اللہ کو بہت بھاتے ہیں۔ اللہ علیم ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کون دئیے جانے کے قابل ہے اور کون فقیری کے لائق ہے اور کون آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہے اور کون وہاں کی رسوائیوں کا سزاوار ہے اسے اس کے اسباب اور اسے اس کے وسائل وہ مہیا اور آسان کر دیتا ہے ۔