يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو (١٣) ور ہر آدمی دیکھ لے کہ اس نے کل (یعنی روز قیامت) کے لئے کیا تیاری کی ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے
اجتماعی اور خیر کی ایک نوعیت اور انفرادی اعمال خیر سیدنا جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم دن چڑھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے جو ننگے بدن اور کھلے پیر تھے ۔ صرف چادروں یا عباؤں سے بدن چھپائے ہوئے تلواریں گردنوں میں حمائل کئے ہوئے تھے یہ تمام لوگ قبیلہ مضر میں سے تھے ، ان کی اس فقرہ فاقہ کی حالت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی رنگت کو متغیر کر دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں گئے پھر باہر آئے پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کہنے کا حکم دیا اذان ہوئی پھر اقامت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی پھر خطبہ شروع کیا اور آیت «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا » ۱؎ (4-النساء:1) ، تلاوت کی پھر سورۃ الحشر کی آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (59-الحشر:18) ، پڑھی اور لوگوں کو خیرات دینے کی رغبت دلائی جس پر لوگوں نے صدقہ دینا شروع کیا بہت سے درہم دینار کپڑے لتے کھجوریں وغیرہ آ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر تقریر کئے جاتے تھے یہاں تک کہ فرمایا: ” اگر آدھی کھجور بھی دے سکتے ہو تو لے آؤ ۔ “ ایک انصاری ایک تھیلی نقدی کی بھری ہوئی بہت وزنی جسے بمشکل اٹھا سکتے تھے لے آئے ، پھر تو لوگوں نے لگاتار جو کچھ پایا لانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہر چیز کے ڈھیر لگ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اداس چہرہ بہت کھل گیا اور مثل سونے کے چمکنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو بھی کسی اسلامی کار خیر کو شروع کرے اسے اپنا بھی اور اس کے بعد جو بھی اس کام کو کریں سب کا بدلہ ملتا ہے لیکن بعد والوں کے اجر گھٹ کر نہیں ، اسی طرح جو اسلام میں کسی برے اور خلاف شرع طریقے کو جاری کرے اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوتا ہے اور پھر جتنے لوگ اس پر کاربند ہوں سب کو جتنا گناہ ملے گا اتنا ہی اسے بھی ملتا ہے مگر ان کے گناہ گھٹتے نہیں “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1017) آیت میں پہلے حکم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ کی صورت پیدا کرو ، یعنی اس کے احکام بجا لا کر اور اس کی نافرمانیوں سے بچ کر ، پھر فرمان ہے کہ وقت سے پہلے اپنا حساب آپ لیا کرو دیکھتے رہو کہ قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے پیش ہو گے ، تب کام آنے والے نیک اعمال کا کتنا کچھ ذخیرہ تمہارے پاس ہے ۔ پھر تاکید ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ تمہارے تمام اعمال و احوال سے اللہ تعالیٰ پورا باخبر ہے نہ کوئی چھوٹا کام اس سے پوشیدہ ، نہ بڑا نہ چھپا نہ کھلا ۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ کے ذکر کو نہ بھولو ورنہ وہ تمہارے نیک اعمال جو آخرت میں نفع دینے والے ہیں بھلا دے گا۔ اس لیے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی کے جنس سے ہوتا ہے اسی لیے فرمایا کہ یہی لوگ فاسق ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے والے اور قیامت کے دن نقصان پہنچانے والے اور ہلاکت میں پڑنے والے یہی لوگ ہیں ۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللہِ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ» ۱؎ (63-المنافقون:9) یعنی ’ مسلمانو ! تمہیں تمہارے مال و اولاد یاد اللہ سے غافل نہ کریں جو ایسا کریں وہ سخت زیاں کار ہیں ۔‘ طبرانی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک خطبہ کا مختصر سا حصہ یہ منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ، ” کیا تم نہیں جانتے ؟ کہ صبح شام تم اپنے مقررہ وقت کی طرف بڑھ رہے ہو ، پس تمہیں چاہیئے کہ اپنی زندگی کے اوقات اللہ عزوجل کی فرمانبرداری میں گزارو ، اور اس مقصد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کوئی شخص صرف اپنی طاقت و قوت سے حاصل نہیں کر سکتا ، جن لوگوں نے اپنی عمر اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے سوا اور کاموں میں کھپائی ان جیسے تم نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان جیسے بننے سے منع فرمایا ہے «وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ أُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ» ۱؎ (59-الحشر:19) خیال کرو کہ تمہاری جان پہچان کے تمہارے بھائی آج کہاں ہیں ؟ انہوں نے اپنے گزشتہ ایام میں جو اعمال کئے تھے ان کا بدلہ لینے یا ان کی سزا پانے کے لیے وہ دربار الٰہیہ میں جا پہنچے ، یا تو انہوں نے سعادت اور خوش نصیبی پائی یا نامرادی اور شقاوت حاصل کر لی ، کہاں ہیں ؟ وہ سرکش لوگ جنہوں نے بارونق شہر بسائے اور ان کے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے مضبوط قلعے کھڑے کئے ، آج وہ قبروں کے گڑھوں میں پتھروں تلے دبے پڑے ہیں ، یہ ہے کتاب اللہ قرآن کریم تم اس نور سے روشنی حاصل کرو جو تمہیں قیامت کے دن کی اندھیروں میں کام آ سکے ، اس کی خوبی بیان سے عبرت حاصل کرو اور بن سنور جاؤ ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے زکریا اور ان کی اہل بیت کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا «إِنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:90) یعنی ’ وہ نیک کاموں میں سبقت کرتے تھے اور بڑے لالچ اور سخت خوف کے ساتھ ہم سے دعائیں کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے جھکے جاتے تھے‘ ، سنو وہ بات بھلائی سے خالی ہے جس سے اللہ کی رضا مندی مقصود نہ ہو ، وہ مال خیرو و برکت والا نہیں جو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا جاتا ہو ، وہ شخص نیک بختی سے دور ہے جس کی جہالت بردباری پر غالب ہو اس طرح وہ شخص بھی نیکی سے خالی ہاتھ ہے جو اللہ کے احکام کی تعمیل میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف کھائے ۔“ اس کی اسناد بہت عمدہ ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں ، گو اس کے ایک راوی نعیم بن نمحہ ثقاہت یا عدم ثقاہت سے معروف نہیں ، لیکن امام ابوداؤد سجستانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ فیصلہ کافی ہے کہ جریر بن عثمان کے تمام استاد ثقہ ہیں اور یہ بھی آپ ہی کے اساتذہ میں سے ہیں اور اس خطبہ کے اور شواہد بھی مروی ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جہنمی اور جنتی اللہ تعالیٰ کے نزدیک یکساں نہیں ، جیسے فرمان ہے «أَمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ» ۱؎ (45-الجاثیۃ:21) ، یعنی ’ کیا بدکاروں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم انہیں باایمان نیک کار لوگوں کے مثل کر دیں گے ان کا جینا اور مرنا یکساں ہے ان کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور برا ہے۔ ‘ اور جگہ ہے «وَمَا یَسْتَوِی الْأَعْمَیٰ وَالْبَصِیرُ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِیءُ» ۱؎ (40-غافر:58) ، یعنی ’ اندھا اور دیکھتا ، ایماندار صالح اور بدکار برابر نہیں ، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کر رہے ہو ۔ ‘ اور «أَمْ نَجْعَلُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِینَ فِی الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِینَ کَالْفُجَّارِ » ۱؎ (38-ص:28) یعنی ’ کیا ہم ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے والوں کو فساد کرنے والوں جیسا بنا دیں گے یا پرہیزگاروں کو مثل فاجروں کے بنا دیں گے ؟‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ، مطلب یہ ہے کہ نیک کار لوگوں کا اکرام ہو گا اور بدکار لوگوں کو رسوا کن عذاب ہو گا ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جنتی لوگ فائز بمرام اور مقصدور ، کامیاب اور فلاح و نجات یافتہ ہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے بال بال بچ جائیں گے ۔‘