سورة الحديد - آیت 14

يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

منافقین اہل جنت کو پکاریں گے (١٤) کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے، تو وہ کہیں گے کہ ہاں، مگر تم نے اپنے آپ کو نفاق میں مبتلا کیا، اور مسلمانوں کے سلسلے میں کسی آفت کا انتظار کرتے رہے، اور شک میں پڑے رہے، اور جھوٹی امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (یعنی تمہاری موت) آگیا، اور شیطان تمہیں اللہ کے معاملے میں (آخری وقت تک) دھوکہ ہی دیتا رہا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

منافقین کا واویلہ اب یہ یاد دلائیں گے کہ دیکھو دنیا میں ہم تمہارے ساتھ تھے جمعہ جماعت ادا کرتے تھے عرفات اور غزوات میں موجود رہتے تھے واجبات ادا کرتے تھے ۔ ایماندار کہیں گے ہاں بات تو ٹھیک ہے لیکن اپنے کرتوت تو دیکھو ، گناہوں میں ، نفسانی خواہشوں میں ، اللہ کی نافرمانیوں میں عمر بھر تم لذتیں اٹھاتے رہے اور آج توبہ کر لیں گے کل بد اعمالیوں چھوڑ دیں گے اسی میں رہے ۔ انتظار میں ہی عمر گزاری دی کہ دیکھیں مسلمانوں کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور تمہیں یہ بھی یقین نہ آیا کہ قیامت آئے گی بھی یا نہیں ؟ اور پھر اس آرزو میں رہے کہ اگر آئے گی پھر تو ہم ضرور بخش دیئے جائیں گے اور مرتے دم تک اللہ کی طرف یقین خلوص کے ساتھ جھکنے کی توفیق میسر نہ آئی اور اللہ کے ساتھ تمہیں دھوکے باز شیطان نے دھوکے میں ہی رکھا ۔ یہاں تک کہ آج تم جہنم واصل ہو گئے ۔ مطلب یہ ہے کہ جسموں سے تو تم ہمارے ساتھ تھے لیکن دل اور نیت سے ہمارے ساتھ نہ تھے بلکہ حیرت و شک میں ہی پڑے رہے ریا کاری میں رہے اور دل لگا کر یاد الٰہی کرنا بھی تمہیں نصیب نہ ہوا ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ منافق مومنوں کے ساتھ تھے ، نکاح بیاہ مجلس مجمع موت زیست میں شریک رہے ۔ لیکن اب یہاں بالکل الگ کر دیئے گئے ۔ سورۃ المدثر کی آیتوں میں ہے کہ «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ فِی جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِینَ مَا سَلَکَکُمْ فِی سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّینَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِینَ وَکُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِینَ وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّینِ حَتَّیٰ أَتَانَا الْیَقِینُ» ۱؎ (74-المدثر:38-47) ’ مسلمان مجرموں سے انہیں جہنم میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ آخر تم یہاں کیسے پھنس گئے اور وہ اپنے بداعمال گنوائیں گے ۔‘ تو یاد رہے کہ یہ سوال صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے اور انہیں شرمندہ کرنے کے لیے ہو گا ورنہ حقیقت حال سے مسلمان خوب آگاہ ہوں گے ۔ پھر جیسے وہاں فرمایا تھا «فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِینَ» ۱؎ (74-المدثر:48) ’ کسی کی سفارش انہیں نفع نہ دے گی ۔ ‘ یہاں فرمایا ’ آج ان سے فدیہ نہ لیا جائے گا گو زمین بھر کر سونا دیں قبول نہ کیا جائے گا ، نہ منافقوں سے ، نہ کافروں سے ان کا مرجع و ماویٰ جہنم ہے وہی ان کے لائق ہے اور ظاہر ہے کہ وہ بدترین جگہ ہے ۔‘