آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
لوگو ! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان (٧) لے آؤ، اور اس مال میں سے خرچ کرو، جس کا اس نے تمہیں وارث بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا، ان کے لئے بڑا اجر ہے
ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنے اوپر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اس پر مضبوطی اور ہمیشگی کے ساتھ جم کر رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اپنی راہ میں خیرات کرنے کی رغبت دلاتا ہے جو مال ہاتھوں ہاتھ تمہیں اس نے پہنچایا ہو تم اس کی اطاعت گزاری میں اسے خرچ کرو اور سمجھ لو کہ جس طرح دوسرے ہاتھوں سے تمہیں ملا ہے اسی طرح عنقریب تمہارے ہاتھوں سے دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور تم پر حساب اور عتاب رہ جائے گا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ تیرے بعد تیرا وارث ممکن ہے نیک ہو اور وہ تیرے ترکے کو میری راہ میں خرچ کر کے مجھ سے قربت حاصل کرے اور ممکن ہے کہ وہ بد اور اپنی مستی اور سیاہ کاری میں تیرا اندوختہ فنا کر دے اور اس کی بدیوں کا باعث تو بنے ، نہ تو چھوڑتا ، نہ اڑاتا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ «أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ » الخ پڑھ کر فرمانے لگے ” انسان گو کہتا رہتا ہے یہ بھی میرا مال ہے ، یہ بھی میرا مال ہے حالانکہ دراصل انسان کا مال وہ ہے جو کھا لیا پہن لیا صدقہ کر دیا کھایا ہوا فنا ہو گیا ، پہنا ہوا پرانا ہو کر برباد ہو گیا ، ہاں راہ اللہ دیا ہوا بطور خزانہ کے جمع رہا۔ “ } (صحیح مسلم:2985) اور جو باقی رہے گا وہ تو اوروں کا مال ہے تو تو اسے جمع کر کے چھوڑ جانے والا ہے ۔ پھر ان ہی دونوں باتوں کی ترغیب دلاتا ہے اور بہت بڑے اجر کا وعدہ دیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے «وَمَا لَکُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِ اللہِ وَالرَّسُولُ یَدْعُوکُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّکُمْ» ۱؎ (57-الحدید:8) یعنی تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کی طرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں اور معجزے دکھا رہے ہیں ۔ صحیح بخاری کی شرح کے ابتدائی حصہ کتاب الایمان میں ہم یہ حدیث بیان کر آئے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” سب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں ؟ “ کہا فرشتے ، فرمایا : ” وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے ؟ “ ، کہا پھر انبیاء علیہ السلام ، فرمایا : ” ان پر تو وحی اور کلام اللہ اترتا ہے وہ کیسے ایمان نہ لاتے ؟ “ کہا پھر ہم ، فرمایا : ” واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے ، میں تم میں زندہ موجود ہوں ، سنو بہترین اور عجیب تر ایماندار وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے ، صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے “ } ۔ ۱؎ (تخریج احادیث و آثار کتاب فی ظلال القرآن:290حسن لغیرہ) سورۃ البقرہ کے شروع میں آیت «الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَ یُـقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ» (2-البقرۃ:3) کی تفسیر میں بھی ہم ایسی احادیث لکھ آئے ہیں ۔ پھر انہیں روز میثاق کا قول و قرار یاد دلاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «وَاذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیثَاقَہُ الَّذِی وَاثَقَکُم بِہِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصٰدُورِ» (5-المائدۃ:7) اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنا ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد وہ میثاق ہے جو آدم کی پیٹھ میں ان سے لیا گیا تھا ، مجاہد رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»