وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ
اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہو کر حساب دینے سے ڈرتا (٢٠) ہے، اس کے لئے دو باغ ہیں
فکر آخرت اور انسان ابن شوذب اور عطا خراسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» (55- الرحمن:46) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ عطیہ بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے کہا تھا مجھے آگ میں جلا دینا تاکہ میں اللہ تعالیٰ کو ڈھونڈانے پر نہ ملوں ، یہ کلمہ کہنے کے بعد ایک رات ایک دن توبہ کی اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی اور اسے جنت میں لے گیا۔ (الدر المنشور-202/6) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کا قول بھی یہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ «وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوَیٰ» (النازعات:40) جو شخص قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا ڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اور اپنے آپ کو نفس کی خواہشوں سے بچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا زندگانی دنیا کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہے اور اسے بہتر اور پائیدار سمجھتا ہے ، فرائض بجا لاتا ہے ، محرمات سے رکتا ہے ، قیامت کے دن اسے ایک چھوڑ دو دو جنتیں ملیں گی۔ صحیح بخاری میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دو جنتیں چاندی کی ہوں گی اور ان کا تمام سامان بھی چاندی کا ہی ہو گا اور دو جنتیں سونے کی ہوں گی ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب سونے کا ہو گا ، ان جنتیوں میں اور دیدار باری میں کوئی چیز حائل نہ ہو گی سوائے اس کبریائی کے پردے کے جو اللہ عزوجل کے چہرے پر ہے یہ جنت عدن میں ہوں گے } ، (صحیح بخاری:4878) یہ حدیث صحاح کی اور کتابوں میں بھی ہے بجز ابوداؤد کے راوی حدیث حماد رحمہ اللہ فرماتے ہیں میرے خیال میں تو یہ حدیث مرفوع ہے۔ تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» (55-الرحمن:46) اور آیت «وَمِنْ دُوْنِہِمَا جَنَّتٰنِ» (55-الرحمن:62) کی۔ سونے کی دو جنتیں مقربین کے لیے اور چاندی کی دو جنتیں اصحاب یمین کے لیے ۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اس آیت کی تلاوت کی تو میں نے کہا اگرچہ زنا اور چوری بھی اس سے ہو گئی ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت کی میں نے پھر یہی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی آیت پڑھی میں نے پھر یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگرچہ ابوالدرداء کی ناک خاک آلود ہو جائے ۔ (نسائی فی التفسیر:580،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض سند سے یہ روایت موقوف بھی مروی ہے اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ جس دل میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف ہو گا ناممکن ہے کہ اس سے زنا ہو یا وہ چوری کرے۔ یہ آیت عام ہے انسانوں اور جنات دونوں کو شامل ہے اور اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ جنوں میں بھی جو ایمان لائیں اور تقویٰ کریں ، وہ جنت میں جائیں گے ، اسی لیے جن و انس کو اس کے بعد خطاب کر کے فرماتا ہے کہ اب تم اپنے رب کی کس کس نعمت کی تکذیب کرو گے؟ پھر ان دونوں جنتوں کے اوصاف بیان فرماتا ہے کہ یہ نہایت ہی سرسبز و شاداب ہیں ، بہترین اعلیٰ خوش ذائقہ عمدہ اور تیار پھل ہر قسم کے ان میں موجود ہیں۔ تمہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ تم اپنے پروردگار کی کسی نعمت کا انکار کرو۔ «افنان» شاخوں اور ڈالیوں کو کہتے ہیں- یہ اپنی کثرت سے ایک دوسری سے ملی جلی ہوئی ہوں گی اور سایہ دار ہوں گی جن کا سایہ دیواروں پر بھی چڑھا ہوا ہو گا، عکرمہ رضی اللہ عنہ یہی معنی بیان کرتے ہیں اور عربی کے شعر کو اس پر دلیل میں وارد کرتے ہیں، یہ شاخیں سیدھی اور پھیلی ہوئی ہوں گی، رنگ برنگ کی ہوں گی۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان میں طرح طرح کے میوے ہوں گی، کشادہ اور گھنے سایہ والی ہوں گی۔ یہ تمام اقوال صحیح ہیں اور ان میں کوئی منافاۃ نہیں یہ تمام اوصاف ان شاخوں میں ہوں گے۔ اسماء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہیٰ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” اس کی شاخوں کا سایہ اس قدر دراز ہے کہ سوار سو سال تک اس میں چلا جائے “ ۔ یا فرمایا کہ سو سوار اس کے تلے سایہ حاصل کر لیں۔ سونے کی ٹڈیاں اس پر چھائی ہوئی تھیں اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں اور بہت بڑی گول جتنے تھے- (سنن ترمذی:2541،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر ان میں نہریں بہہ رہی ہیں تاکہ ان درختوں اور شاخوں کو سیراب کرتی رہیں اور بکثرت اور عمدہ پھل لائیں۔ اب تو تمہیں اپنے رب کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیئے ایک کا نام «تسنیم» ہے، دوسری کا «سلسبیل» ہے- یہ دونوں نہریں پوری روانگی کے ساتھ بہہ رہی ہیں۔ ایک ستھرے پانی کی دوسری لذت والے بےنشے کے شراب کی، ان میں ہر قسم کے پھلوں کے جوڑے بھی موجود ہیں اور پھل بھی وہ جن سے تم صورت شناس تو ہو لیکن لذت شناس نہیں ہو کیونکہ وہاں کی نعمتیں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں ، نہ کسی کان نے سنی ہیں ، نہ کسی دماغ میں آ سکتی ہیں، تمہیں رب کی نعمتوں کی ناشکری سے رک جانا چاہیئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں دنیا میں جتنے بھی کڑوے میٹھے پھل ہیں ، وہ سب جنت میں ہوں گے یہاں تک کہ «حنظل» یعنی اندرائن بھی۔ ہاں دنیا کی ان چیزوں اور جنت کی ان چیزوں کے نام تو ملتے جلتے ہیں حقیقت اور لذت بالکل ہی جداگانہ ہے یہاں تو صرف نام ہیں اصلیت تو جنت میں ہے، اس فضیلت کا فرق وہاں جانے کے بعد ہی معلوم ہو سکتا ہے۔