سورة الطور - آیت 48

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اے میرے نبی ! آپ اپنے رب کے فیصلے کا صبر کے ساتھ انتظار کیجیے (٢٧) آپ بے شک ہماری نگاہوں میں ہیں، اور جب آپ اٹھئے تو اپنے رب کی حمد و ثناء کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیجیے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

حمد باری کا حکم پھر فرماتا ہے کہ اے نبی ! آپ صبر کیجئے ان کی ایذاء دہی سے تنگ دل نہ ہو جائیے ، ان کی طرف سے کوئی خطرہ بھی دل میں نہ لائیے ، سنئیے آپ ہماری حفاظت میں ہیں ، آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، آپ کی نگہبانی کے ذمہ دار ہم ہیں ، تمام دشمنوں سے آپ کو بچانا ہمارے سپرد ہے ، پھر حکم دیتا ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں تو اللہ کی پاکی اور تعریف بیان کیجئے اس کا ایک مطلب یہ کیا گیا ہے کہ جب رات کو جاگیں ۔ دونوں مطلب درست ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ { نماز کو شروع کرتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ ، وَتَعَالٰی جَدٰکَ ، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ» یعنی اے اللہ تو پاک ہے تمام تعریفوں کا مستحق ہے تیرا نام برکتوں والا ہے تیری بزرگی بہت بلند و بالا ہے ، تیرے سوا معبود برحق کوئی اور نہیں } ۔ مسند احمد اور سنن میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا مروی ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص رات کو جاگے اور کہے «لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ،‏‏‏‏ لہ الملک،‏‏‏‏ ولہ الحمد،‏‏‏‏ وہو علی کل شیء قدیر‏.‏ الحمد للہ،‏‏‏‏ وسبحان اللہ،‏‏‏‏ ولا إلہ إلا اللہ،‏‏‏‏ واللہ أکبر،‏‏‏‏ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ‏» پھر خواہ اپنے لیے بخشش کی دعا کرے خواہ جو چاہے طلب کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے پھر اگر اس نے پختہ ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز بھی ادا کی تو وہ نماز قبول کی جاتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے “ } ۔ (صحیح بخاری:1154) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی تسبیح اور حمد کے بیان کرنے کا حکم ہر مجلس سے کھڑے ہونے کے وقت ہے ۔ ابوالاحوص رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ جب مجلس سے اٹھنا چاہے یہ پڑھے «سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ» عطا بن ابورباح رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اس مجلس میں نیکی ہوئی ہے تو وہ اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کچھ اور ہوا ہے تو یہ کلمہ اس کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ جامع عبدالرزاق میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی کہ جب کبھی کسی مجلس سے کھڑے ہوں تو «سُبْحَانَکَ اللہُمَّ وبَحَمْدکَ أشْہدُ أنْ لا إلہَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وأتُوبُ إِلَیْکَ» پڑھو ۔ اس کے راوی معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ قول اس مجلس کا کفارہ ہو جاتا ہے } ۔ (عبدالرزاق:19796مرسل) یہ حدیث تو مرسل ہے لیکن مسند حدیثیں بھی اس بارے میں بہت سی مروی ہیں جن کی سندیں ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے { جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے وہاں کچھ بک جھک ہو اور کھڑا ہونے سے پہلے ان کلمات کو کہہ لے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے } ۔ (سنن ترمذی:3433،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں ۔ امام حاکم اسے مستدرک میں روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند شرط مسلم پر ہے ، ہاں امام بخاری نے اس میں علت نکالی ہے ، میں کہتا ہوں امام احمد ، امام مسلم ، امام ابوحاتم ، امام ابوزرعہ، امام دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اسے معلول کہا ہے اور وہم کی نسبت ابن جریج کی طرف کی ہے مگر یہ روایت ابوداؤد میں جس سند سے مروی ہے اس میں ابن جریج رحمہ اللہ ہیں ہی نہیں ، اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں جس مجلس سے کھڑے ہوتے ان کلمات کو کہتے بلکہ ایک شخص نے پوچھا بھی کہ یا رسول اللہ ! آپ اس سے پہلے تو اسے نہیں کہتے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجلس میں جو کچھ ہوا ہو یہ کلمات اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں “ } ، یہ روایت مرسل سند سے بھی ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے مروی ہے «واللہ اعلم» نسائی وغیرہ ۔(سنن ابوداود:4859،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ کلمات ایسے ہیں کہ جو انہیں مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ کہہ لے اس کے لیے یہ کفارہ ہو جاتے ہیں ، مجلس خیر اور مجلس ذکر میں انہیں کہنے سے یہ مثل مہر کے ہو جاتے ہیں ( ابوداؤد وغیرہ ) الحمداللہ میں نے ایک علیحدہ جزو میں ان تمام احادیث کو ان کے الفاظ کو اور ان کی سندوں کو جمع کر دیا ہے اور ان کی علتیں بھی بیان کر دی ہیں اور اس کے متعلق جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس کی یاد اور اس کی عبادت تلاوت اور نماز کے ساتھ کرتے رہو جیسے فرمان ہے «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَی أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» (17-الإسراء:79) رات کے وقت تہجد پڑھا کرو ، یہ تیرے لیے نفل ہے ، ممکن ہے تیرا رب تجھے مقام محمود پر اٹھائے ۔ ستاروں کے ڈوبتے وقت سے مراد صبح کی فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں کہ وہ دونوں ستاروں کے غروب ہونے کے لیے جھک جانے کے وقت پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک مرفوع حدیث میں ہے ان سنتوں کو نہ چھوڑو گو تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں ۔ (سنن ابوداود:1258،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اسی حدیث پر نظریں رکھ کر امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب نے تو انہیں واجب کہا ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لیے کہ حدیث میں ہے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں ، سننے والے نے کہا : کیا مجھ پر اس کے سوا اور کچھ بھی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں مگر یہ کہ تو نفل ادا کرے “ ۔ (صحیح بخاری:1891) بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل کی بہ نسبت صبح کی دو سنتوں کے زیادہ پابندی اور نگرانی نہ کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:1169) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” صبح کے فرضوں سے پہلے یہ دو سنتیں ساری دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں “ } ۔ (صحیح مسلم:96) «الحمداللہ» سورۃ الطور کی تفسیر پوری ہوئی ۔