وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
اور جو لوگ ایمان (١٠) لائے، اور ان کی اولاد نے ایمان لا کر راہ راست پر چلنے میں ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو ( جنت میں) ان سے ملا دیں گے، اور ان کے نیک اعمال میں ہم کوئی کمی نہیں کریں گے، ہر آدمی اپنے عمل کے بدلے گروی ہوگا
صالح اولاد انمول اثاثہ اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں ۔ ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لیے اور ان کے لیے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، شعبی ، سعید بن جبیر ، ابراہیم ، قتادہ ، ابوصالح ، ربیع بن انس ، ضحاک بن زید رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ دونوں جہنم میں ہیں “ ، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا ، مائی صاحبہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں “ ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے ، وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا ؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا “ } ۔ (مسند احمد:509/2:حسن) اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی ۔ لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ { ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں ، صدقہ جاریہ ، علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے ، نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعائے خیر کرتی رہے } ۔ (صحیح مسلم:1631) چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا ، باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا ۔ جیسے اور جگہ ہے «کُلٰ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِینَۃٌ» * «إِلَّا أَصْحَابَ الْیَمِینِ» * «فِی جَنَّاتٍ یَتَسَاءَلُونَ» * «عَنِ الْمُجْرِمِینَ» (74-المدثر:41-38) ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں ، جس چیز کو جی چاہے ، جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے ، شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں ، جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بدزبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی ، ہذیان نہیں بکتے ، بیہوش نہیں ہوتے ، سچا سرور اور پوری خوشی حاصل ، بک جھک سے دور ، گناہ سے غافل ، باطل وکذب سے دور ، غیبت و گناہ سے نفور ، دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر ، پیٹ میں درد ، عقل زائل ، بکواس بہت ، بو بری ، چہرے بے رونق ، اسی طرح شراب کے بدذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے «بَیْضَاءَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِینَ» * «لَا فِیہَا غَوْلٌ وَلَا ہُمْ عَنْہَا یُنزَفُونَ» (37-الصافات:46،47) یہ رنگ میں سفید ، پینے میں خوش ذائقہ ، نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں ، نہ بک جھک ہو ، نہ بہکیں ، نہ بھٹکیں ، نہ مستی ہو ، نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے ، ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے ۔