سورة ق - آیت 36

وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُم بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِن مَّحِيصٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس میں انہیں اپنی مرضی کی ہر چیز ملے گی، اور ہمارے پاس ان کی خواہش سے زیادہ نعمتیں ہیں

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بےسود کوشش ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کفار تو کیا چیز ہیں ؟ ان سے بہت زیادہ قوت و طاقت اور اسباب تعداد کے لوگوں کو اسی جرم پر ہم تہ و بالا کر چکے ہیں جنہوں نے شہروں میں اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں ، زمین میں خوب فساد کیا ، لمبے لمبے سفر کرتے تھے ، ہمارے عذاب دیکھ کر بچنے کی جگہ تلاش کرنے لگے ، مگر یہ کوشش بالکل بےسود تھی ، اللہ کی قضاء و قدر اور اس کی پکڑ دھکڑ سے کون بچ سکتا تھا ؟ پس تم بھی یاد رکھو کہ جس وقت میرا عذاب آ گیا ، بغلیں جھانکتے رہ جاؤ گے اور بھوسی کی طرح اڑا دئیے جاؤ گے ۔ ہر عقلمند کے لیے اس میں کافی عبرت ہے اگر کوئی ایسا بھی ہو جو سمجھ داری کے ساتھ کان لگائے وہ بھی اس میں بہت کچھ پا سکتا ہے، یعنی دل کو حاضر کر کے کانوں سے سنے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:433/11) پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے آسمانوں کو اور زمین کو اور اس کے درمیان کی چیزوں کو چھ روز میں پیدا کیا اور وہ تھکا نہیں ، اس میں بھی موت کے بعد کی زندگی پر اللہ کے قادر ہونے کا ثبوت ہے کہ جو ایسی بڑی مخلوق کو اولاً پیدا کر چکا ہے اس پر مردوں کو جلانا کیا بھاری ہے ؟ قتادۃ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ملعون یہود کہتے تھے کہ چھ دن میں مخلوق کو رچا کر خالق نے ساتوں روز آرام کیا اور یہ دن ہفتہ کا تھا اس کا نام ہی انہوں نے «یوم الراحت» رکھ چھوڑا تھا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اس واہی خیال کی تردید کی کہ ہمیں تھکن ہی نہ تھی آرام کیسا ؟ جیسے اور آیت میں ہے «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَی أَن یُحْیِیَ الْمَوْتَی بَلَی إِنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ» ۱؎ (46-الأحقاف:33) ’ یعنی کیا انہوں نے نہیں دیکھا ؟ کہ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کی پیدائش سے نہ تھکا وہ مردوں کے جلانے پر قادر نہیں ؟ ہاں کیوں نہیں وہ تو ہر چیز پر قادر ہے ‘ اور آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (40-غافر:57) ’ البتہ آسمان و زمین کی پیدائش لوگوں کی پیدائش سے بہت بڑی ہے ‘ اور آیت میں ہے «ءَاَنْتُمْ اَشَدٰ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءُ بَنٰیہَا» ۱؎ (79-النازعات:27) ’ کیا تمہاری پیدائش زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی ، اسے اللہ نے بنایا ہے ۔ ‘ پھر فرمان ہوتا ہے کہ یہ جھٹلانے اور انکار کرنے والے جو کہتے ہیں اسے صبر سے سنتے رہو اور انہیں مہلت دو ان کو چھوڑ دو اور سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے اور رات کو اللہ کی پاکی اور تعریف کیا کرو ۔ معراج سے پہلے صبح اور عصر کی نماز فرض تھی اور اس کے بعد آپ کی امت سے اس کا وجوب منسوخ ہو گیا اس کے بعد معراج والی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں جن میں فجر اور عصر کی نمازیں جوں کی توں رہیں ۔ پس سورج نکلنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے مراد فجر کی اور عصر کی نماز ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودہویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا : ” تم اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اس طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ، وہ جس کے دیکھنے میں کوئی دھکا پیلی نہیں ، پس اگر تم سے ہو سکے تو خبردار سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نمازوں سے غافل نہ ہو جایا کرو “ } ۔ پھر آپ نے آیت «وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِہَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضَی» ۱؎ (20-طہ:130) پڑھی یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:554) رات کو بھی اس کی تسبیح بیان کر یعنی نماز پڑھ جیسے فرمایا «وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسَی أَن یَبْعَثَکَ رَبٰکَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ (17-الإسراء:79) یعنی ’ رات کو تہجد کی نماز پڑھا کر یہ زیادتی خاص تیرے لیے ہی ہے ، تجھے تیرا رب مقام محمود میں کھڑا کرنے والا ہے ‘ ، سجدوں کے پیچھے سے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نماز کے بعد اللہ کی پاکی بیان کرنا ہے ۔ بخاری و مسلم میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مفلس مہاجر آئے اور کہا یا رسول اللہ ! مالدار لوگ بلند درجے اور ہمیشہ والی نعمتیں حاصل کر چکے آپ نے فرمایا : ” یہ کیسے ؟ “ ، جواب دیا کہ ہماری طرح نماز روزہ بھی تو وہ بھی کرتے ہیں لیکن وہ صدقہ دیتے ہیں جو ہم نہیں دے سکتے وہ غلام آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے آپ نے فرمایا : ” آؤ تمہیں ایک ایسا عمل بتلاؤں کہ جب تم اسے کرو تو سب سے آگے نکل جاؤ اور تم سے افضل کوئی نہ نکلے لیکن جو اس عمل کو کرے ۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ «سبحان اللہ» ، تینتیس مرتبہ «الحمداللہ» ، تینتیس مرتبہ «اللہ اکبر» پڑھ لیا کرو “ ، پھر وہ آئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہمارے مالدار بھائیوں نے بھی آپ کی اس حدیث کو سنا اور وہ بھی اس عمل کو کرنے لگے ۔ آپ نے فرمایا : ” پھر یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:841) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعت ہیں ۔ سیدنا عمر ، سیدنا علی ، سیدنا حسن بن علی ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہم کا یہی فرمان ہے اور یہی قول ہے مجاہد عکرمہ شعبی نخعی قتادہ رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے بجز فجر اور عصر کی نماز کے ، عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر نماز کے پیچھے ۔ (مسند احمد:124/1:ضعیف) ابن ابی حاتم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گزاری آپ نے فجر کے فرضوں سے پہلے دو ہلکی رکعت ادا کیں ، پھر گھر سے نماز کیلئے نکلے اور فرمایا : ” اے ابن عباس ! فجر کے پہلے کی دو رکعت «وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاِدْبَار النٰجُوْمِ» ۱؎ (52-الطور:49) ہیں اور مغرب کے بعد کی دو رکعت «وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَار السٰجُوْدِ» ہیں ۔ } ۱؎ (50-ق:40) ۱؎ (سنن ترمذی:3275،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) یہ اسی رات کا ذکر ہے جس رات سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تہجد کی نماز کی تیرہ رکعت آپ کی اقتداء میں ادا کی تھیں اور اس رات آپ کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی ۔ لیکن اوپر جو بیان ہوا یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے غریب بتلاتے ہیں ہاں اصل حدیث تہجد کی تو بخاری و مسلم میں ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1198) ممکن ہے کہ پچھلا کلام سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا ہو ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»