يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ
جس دن ہم جہنم سے کہیں گے، کیا تو بھر گئی (٢٢) اور وہ کہے گی : کیا اور جہنمی ہیں
متکبر اور متجبر کا ٹھکانہ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا جہنم سے وعدہ ہے کہ اسے پر کر دے گا اس لیے قیامت کے دن جو جنات اور انسان اس کے قابل ہوں گے انہیں اس میں ڈال دیا جائے گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ دریافت فرمائے گا کہ اب تو تو پر ہو گئی ؟ اور یہ کہے گی کہ اگر کچھ اور گنہگار باقی ہوں تو انہیں بھی مجھ میں ڈال دو ۔ صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہنم میں گنہگار ڈالے جائیں گے اور وہ زیادتی طلب کرتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھے گا پس وہ کہے گی بس بس “ } ۔ (صحیح بخاری:4848) مسند احمد کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ { اس وقت یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی تیری عزت و کرم کی قسم ، بس بس اور جنت میں جگہ بچ جائے گی یہاں تک کہ ایک نئی مخلوق پیدا کر کے اللہ تعالیٰ اس جگہ کو آباد کرے گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2848) صحیح بخاری میں ہے { جنت اور دوزخ میں ایک مرتبہ گفتگو ہوئی ، جہنم نے کہا کہ میں ہر متکبر اور ہر متجبر کے لیے مقرر کی گئی ہوں اور جنت نے کہا میرا یہ حال ہے کہ مجھ میں کمزور لوگ اور وہ لوگ جو دنیا میں ذی عزت نہ سمجھے جاتے تھے وہ داخل ہوں گے ۔ اللہ عزوجل نے جنت سے فرمایا تو میری رحمت ہے ، اپنے بندوں میں سے جسے چاہوں گا اس رحمت کے ساتھ نواز دوں گا اور جہنم سے فرمایا تو میرا عذاب ہے تیرے ساتھ میں جسے چاہوں گا عذاب کروں گا ۔ ہاں تم دونوں بالکل بھر جاؤ گی ، تو جہنم تو نہ بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھے گا ، اب وہ کہے گی بس بس بس ۔ اس وقت وہ بھر جائے گی اور اس کے سب جوڑ آپس میں سمٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ ہاں جنت میں جو جگہ بچ رہے گی اس کے بھرنے کے لیے اللہ عزوجل اور مخلوق پیدا کرے گا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4850) مسند احمد کی حدیث میں جہنم کا قول یہ ہے کہ { مجھ میں جبر کرنے والے ، تکبر کرنے والا بادشاہ اور شریف لوگ داخل ہوں گے اور جنت نے کہا مجھ میں کمزور ضعیف فقیر مسکین داخل ہوں گے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:13/3:صحیح) مسند ابو یعلیٰ میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ذات قیامت کے دن دکھائے گا ، میں سجدے میں گر پڑوں گا ، اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو گا ، پھر میں اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریفیں کروں گا کہ وہ اس سے خوش ہو جائے گا ، پھر مجھے شفاعت کی اجازت دی جائے گی ، پھر میری امت جہنم کے اوپر کے پل سے گزرنے لگے گی ، بعض تو نگاہ کی سی تیزی سے گزر جائیں گے بعض تیر کی طرح پار ہو جائیں گے ، بعض تیز گھوڑوں سے زیادہ تیزی سے پار ہو جائیں گے یہاں تک کہ ایک شخص گھٹنوں چلتا ہوا گزر جائے گا اور یہ مطابق اعمال ہو گا اور جہنم زیادتی طلب کر رہی ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا پس یہ سمٹ جائے گی اور کہے گی بس بس اور میں حوض میں ہوں گا “ ۔ لوگوں نے کہا : حوض کیا ہے ؟ فرمایا : ” اللہ کی قسم ! اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ۔ اس پر برتن آسمان کے ستاروں سے زیادہ ہیں جسے اس کا پانی مل گیا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا اسے کہیں سے پانی نہیں ملے گا جو سیراب کر سکے ۔ } ۱؎ (ذکرہ ابن حجر فی المطالب العالیہ:383/4:ضعیف و موضوع) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں کوئی مکان ہے کہ مجھ میں زیادتی کی جائے ؟ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں وہ کہے گی کیا مجھ میں ایک کے بھی آنے کی جگہ ہے ؟ میں بھر گئی ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس میں جہنمی ڈالے جائیں گے یہاں تک کہ وہ کہے گی میں بھر گئی اور کہے گی کہ کیا مجھ میں زیادہ کی گنجائش ہے ؟ امام ابن جریر رحمہ اللہ پہلے قول کو ہی اختیار کرتے ہیں اس دوسرے قول کا مطلب یہ ہے کہ گویا ان بزرگوں کے نزدیک یہ سوال اس کے بعد ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ دے ، اب جو اس سے پوچھے گا کہ کیا تو بھر گئی تو وہ جواب دے گی کہ کیا مجھ میں کہیں بھی کوئی جگہ باقی رہی ہے جس میں کوئی آ سکے ؟ یعنی باقی نہیں رہی پر ہو گئی ۔ عوفی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ اس وقت ہو گا جبکہ اس میں سوئی کے ناکے کے برابر بھی جگہ باقی نہ رہے گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرماتا ہے جنت قریب کی جائے گی یعنی قیامت کے دن جو دور نہیں ہے اس لیے کہ جس کا آنا یقینی ہو وہ دور نہیں سمجھا جاتا ۔ «اواب» کے معنی رجوع کرنے والا ، توبہ کرنے والا ، گناہوں سے رک جانے والا ۔ «حفیظ» کے معنی وعدوں کا پابند ۔ عبید بن عمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «اواب حفیظ» وہ ہے جو کسی مجلس میں بیٹھ کر نہ اٹھے جب تک کہ استغفار نہ کر لے ۔ جو رحمان سے بن دیکھے ڈرتا رہے یعنی تنہائی میں بھی خوف اللہ رکھے ۔ حدیث میں ہے { وہ بھی قیامت کے دن عرش اللہ کا سایہ پائے گا جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:660) اور قیامت کے دن اللہ کے پاس دل سلامت لے کر جائے ۔ جو اس کی جانب جھکنے والا ہو ۔ اس میں یعنی جنت میں چلے جاؤ اللہ کے تمام عذابوں سے تمہیں سلامتی مل گئی اور یہ بھی مطلب ہے کہ فرشتے ان پر سلام کریں گے یہ «خلود» کا دن ہے ۔ یعنی جنت میں ہمیشہ کے لیے جا رہے ہو جہاں کبھی موت نہیں ۔ یہاں سے کبھی نکال دئیے جانے کا خطرہ نہیں جہاں سے تبدیلی اور ہیر پھیر نہیں ۔ پھر فرمایا یہ وہاں جو چاہیں گے پائیں گے بلکہ اور زیادہ بھی ۔ کثیر بن مرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مزید یہ بھی کہ اہل جنت کے پاس سے ایک بادل گزرے گا جس میں سے ندا آئے گی کہ تم کیا چاہتے ہو ؟ جو تم چاہو میں برساؤں ، پس یہ جس چیز کی خواہش کریں گے اس سے برسے گی ۔ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر میں اس مرتبہ پر پہنچا اور مجھ سے سوال ہوا تو میں کہوں گا کہ خوبصورت خوش لباس نوجوان کنواریاں برسائی جائیں ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” تمہارا جی جس پرند کو کھانے کو چاہے گا وہ اسی وقت بھنا بھنایا موجود ہو جائے گا “ } ۔ مسند احمد میں ہے کہ { اگر جنتی اولاد چاہے گا تو ایک ہی ساعت میں حمل اور بچہ اور بچے کی جوانی ہو جائے گی } ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں اور ترمذی میں یہ بھی ہے کہ جس طرح یہ چاہے گا ہو جائے گا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2562،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور آیت میں ہے «لِّلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَیٰ وَزِیَادَۃٌ» ۱؎ (10-یونس:26) صہیب بن سنان رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس زیادتی سے مراد اللہ کریم کے چہرے کی زیارت ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:181) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر جمعہ کے دن انہیں دیدار باری تعالیٰ ہو گا یہی مطلب مزید کا ہے ۔ مسند شافعی میں ہے { جبرائیل علیہ السلام ایک سفید آئینہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جس کے بیچوں بیچ ایک نکتہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” یہ کیا ہے ؟ “ فرمایا : یہ جمہ کا دن ہے جو خاص آپ کو اور آپ کی امت کو بطور فضیلت کے عطا فرمایا گیا ہے ۔ سب لوگ اس میں آپ کے پیچھے ہیں یہود بھی اور نصاریٰ بھی آپ کے لیے اس میں بہت کچھ خیر و برکت ہے اس میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے گا مل جاتا ہے ہمارے یہاں اس کا نام «یوم المزید» ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ” یہ کیا ہے ؟ “ فرمایا : تیرے رب نے جنت الفردوس میں ایک کشادہ میدان بنایا ہے جس میں مشکی ٹیلے ہیں ، جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ جن جن فرشتوں کو چاہے اتارتا ہے ، اس کے اردگرد نوری منبر ہوتے ہیں جن پر انبیاء علیہم السلام رونق افروز ہوتے ہیں ، یہ منبر سونے کے ہیں ، جس پر جڑاؤ جڑے ہوئے ہیں شہداء اور صدیق لوگ ان کے پیچھے ان مشکی ٹیلوں پر ہوں گے ۔ اللہ عزوجل فرمائے گا میں نے اپنا وعدہ تم سے سچا کیا اب مجھ سے جو چاہو مانگو پاؤ گے ۔ یہ سب کہیں گے ہمیں تیری خوشی اور رضا مندی مطلوب ہے ، اللہ فرمائے گا یہ تو میں تمہیں دے چکا میں تم سے راضی ہو گیا ، اس کے سوا بھی تم جو چاہو گے ، پاؤ گے اور میرے پاس اور زیادہ ہے ۔ پس یہ لوگ جمعہ کے خواہشمند رہیں گے کیونکہ انہیں بہت سی نعمتیں اسی دن ملتی ہیں یہی دن ہے جس دن تمہارا رب عرش پر مستوی ہوا اسی دن آدم پیدا کئے گئے اور اسی دن قیامت آئے گی ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:229/7:ضعیف) اسی طرح اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام کی کتاب الجمعہ میں بھی وارد کیا ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ایک بہت بڑا اثر وارد کیا ہے جس میں بہت سی باتیں غریب ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جنتی ستر سال تک ایک ہی طرف متوجہ بیٹھا رہے گا پھر ایک حور آئے گی جو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنی طرف متوجہ کرے گی وہ اتنی خوبصورت ہو گی کہ اس کے رخسار میں اسے اپنی شکل اس طرح نظر آئے گی جیسے آب دار آئینے میں وہ جو زیورات پہنے ہوئے ہو گی ان میں کا ایک ایک ادنیٰ موتی ایسا ہو گا کہ اس کی جوت سے ساری دنیا منور ہو جائے ، وہ سلام کرے گی یہ جواب دے کر پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گی میں ہوں جسے قرآن میں «مزید» کہا گیا تھا ۔ اس پر ستر حلے ہوں گے تاہم اس کی خوبصورتی اور چمک دمک اور صفائی کی وجہ سے باہر ہی سے اس کی پنڈلی کا گودا تک نظر آئے گا اس کے سر پر جڑاؤ تاج ہو گا جس کا ادنیٰ موتی مشرق مغرب کو روشن کر دینے کے لیے کافی ہے “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:75/3:ضعیف)