سورة ق - آیت 12

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کفارمکہ سے پہلے قوم نوح (٨) اور رس والوں نے اور ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا تھا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

شامت اعمال اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو ان عذابوں سے ڈرا رہا ہے جو ان جیسے جھٹلانے والوں پر ان سے پہلے آچکے ہیں ، جیسے کہ نوح علیہ السلام کی قوم جنہیں اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کر دیا اور اصحاب «رس» جن کا پورا قصہ سورۃ الفرقان کی تفسیر میں گزر چکا ہے اور ثمود اور عاد اور امت لوط جسے زمین میں دھنسا دیا اور اس زمین کو سڑا ہوا دلدل بنا دیا یہ سب کیا تھا ؟ ان کے کفر ، ان کی سرکشی ، اور مخالفت حق کا نتیجہ تھا اصحاب ایکہ سے مراد قوم شعیب ہے [ علیہ الصلوۃ والسلام ] اور قوم تبع سے مراد یمانی ہیں ۔ سورۃ الدخان میں ان کا واقعہ بھی گزر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر ہے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ان تمام امتوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور عذاب اللہ سے ہلاک کر دئیے گئے یہی اللہ کا اصول جاری ہے ۔ یہ یاد رہے کہ ایک رسول کا جھٹلانے والا تمام رسولوں کا منکر ہے ۔ جیسے اللہ عزوجل و علا کا فرمان ہے «کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:105) ’ قوم نوح نے رسولوں کا انکار کیا ‘ حالانکہ ان کے پاس صرف نوح علیہ السلام ہی آئے تھے ، پس دراصل یہ تھے ایسے کہ اگر ان کے پاس تمام رسول آ جاتے تو یہ سب کو جھٹلاتے ، ایک کو بھی نہ مانتے ، سب کی تکذیب کرتے ، ایک کی بھی تصدیق نہ کرتے ، ان سب پر اللہ کے عذاب کا وعدہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ثابت ہو گیا اور صادق آ گیا ۔ پس اہل مکہ اور دیگر مخاطب لوگوں کو بھی اس بدخصلت سے پرہیز کرنا چاہیئے کہیں ایسا نہ ہو کہ عذاب کا کوڑا ان پر بھی برس پڑے ، کیا جب یہ کچھ نہ تھے ان کا بسانا ہم پر بھاری پڑا تھا ؟ جو اب دوبارہ پیدا کرنے کے منکر ہو رہے ہیں ، ابتداء سے تو اعادہ بہت ہی آسان ہوا کرتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ وَلَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ» ۱؎ (30-الروم:27) یعنی ’ ابتداءً اسی نے پیدا کیا ہے اور دوبارہ بھی وہی اعادہ کرے گا اور یہ اس پر بہت آسان ہے ‘ ۔ سورۃ یٰسین میں فرمان الٰہی جل جلالہ گزر چکا کہ «وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یٰحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» ۱؎ (36-یس:79-78) ’ یعنی اپنی پیدائش کو بھول کر ہمارے سامنے مثالیں بیان کرنے لگا اور کہنے لگا ، بوسیدہ سڑی گلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ ان کو تو جواب دے کہ وہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور تمام خلق کو جانتا ہے ۔ ‘ صحیح حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے بنی آدم ایذاء دیتا ہے جب یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا دوبارہ پیدا کرنے سے کچھ آسان نہیں ۔ }